مضمون نویسی ایونٹ . ستمبر 2015

(جاوید مرزا( عظمت کے اسیر

حالیہ یوم ِ عید پر وطن ِعزیز کی عید کو یاد کرتے کرتے اداس جی کو دلاسہ دلانے مقامی گاؤں نما قصبے کے مرکزی اسکوائر میں جا بیٹھے ۔ ہماری نظروں کی محور اعادہ ِ شباب کے جنوں میں اسیر ایک بزرگ لیڈی تھیں جو عمر میں یقینا” ہماری خانون ِخان سے کئی برس آگے ہی ہوں گیں ۔
سنہری بالوں کو سلیقے سے ربڑبینڈ سے باندھا ہوا ، کانوں میں دلآویز آویزے ،میک اپ کی قطعا” ضرورت نہ ہونے کے باوجود ہلکا ہلکا ڈیسنٹ میک اپ ، اپنی جانب زبردستی متوجہ کرتی ہوئی شوخ لپ اسٹک ، گلے میں چار پانچ انواع کے نکلسس ، دس انگلیوں میں بیس انگوٹیاں جگمگ جگمگ کرتے ہوئے بیش قیمت ہیروں کے ساتھ ، سر پر نسوانی ہیٹ اور موجودہ فیشن کے مطابق رنگ برنگ پیوندوں سے مزین جینز کی پینٹ جس کے پنچے ، طویل دراز اونی موزوں کے اندر چھپائے ہوئے اور انتہائی موزوں جسم کو جانب ِدرازی لے جاتا ہوا قد اور اُس پر جما حسن ِنسوانی بے حد ۔
انداز ِگفتگو یوں کہ زبان ِغیر سے شرح ِ آزو بھی سمجھ با آسانی آ جائے ۔ آواز ِشیریں اتنی دھیمی کہ کانوں میں مٹھاس کی طغیانی آ جائے ۔
ہم ایک عرصہ سے اس پیکر ِجمال کو حالت ِ باکمال میں دیکھ رہے ہیں ۔ شہر میں کہیں بھی سر ِعام موسیقی کا کوئی پروگرام ہو ، بھلے ماتمی موسیقی کا ہی کیوں نہ ہو ، انہیں تھرکنے ، لڑکھنے اور لچکنے میں ہمیشہ دوسروں پر سبقت لے جاتے ہوئے دیکھا ہے ۔
ان میں ایک وصف یہ بھی ہے اپنے سب سے زیادہ گھورنے والے کو ہم رقص بنا لتی ہیں ۔ واللہ ہماری نیت ایسی تو نہ تھی ۔ کہ کل ایک ایسی ہی ہنجان انگیز موسیقی کی لے پر ناچتے ناچتے اس خاکسار کو نگرانی کرتی ہوئی زوجہ کے حصار سے برآمد کرکے دائرہ ِ رقص میں درآمد کیا ۔
بظاہر بادلنخواسطہ ہم نے رقص تو کیا مگر جی میں تھا کہ عمر بھلے ختم ہوجائے ،رقص ختم نہ ہو ۔ دوران ِرقص انہوں نے ہم رقص کا وطن ِمالوف دریافت کیا ہم نے بلے بلے انداز میں بھنگڑا ڈالا ۔
زمانہ شناس تھیں،سمجھ گیں اور سرگوشی میں پوچھا ” لاہور میں رہائش پذیر عوام اگر اطراف کے علاقوں اور دوسرے چھوٹے شہروں سے نہ آئیں تو آپکے شہر میں تو ریستورانوں، جگتوں اور ملاوٹوں کا تو فقدان ہو جائے گا نا ؟ ”
ابھی ہم جواب دینے کیلیئے اپنی بغلیں جھانک ہی رہے تھے کہ خاتون ِخانہ نے ہمیں ” خصم گین ” نظروں سے دیکھا اور اپنے گلے پر باانداز چھری اشارہ کیا ۔ ہم ٹھہرے بھولے، سمجھے شریک ِحیات پوچھ رہی ہیں ان بزرگ رقاصہ سے دریافت کریں ، انہوں نے قربانی کی ہے کیا ؟ ( یاد رہے اُس دن بکرا عید تھی ) ۔
ہم نے شوہرانہ سعادت مندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے تھرکتے قدموں اور لرزتے ہونٹوں سے پوچھا تو وہ ہم سے بھی زیادہ سادہ لوح نکلیں ۔ فورا” انگلش کا ایک گیت سنا دیا ، جس کے لغوی معانی یہی تھے ۔
” یا قربان یاقربان
لائے گا میرا دلبر جانی
تازہ گوشت کی بریانی
یا قربان یا قربان ”
ہماری اولاد کی والدہ نے معاملہ اپنے ازدواجی ریڈار کی رینج سے باہر جاتا ہوئے دیکھا تو با انداز ِڈرون اچانک اٹیک کیا ، تو ہمیں کچھ بھی یاد نہ رہا یعنی اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی ، آنکھ کھلی تو لگی تھی ڈوپٹے کی ہتھکڑی ، نتیجا” فریقین سو گئے مع شکائیت ِ ان کہی ۔
آیئے اب اصل موضوع کی طرف ۔
آج صبع ہم واک کرتے ہوئے کل والے ہی مقام ِ رقص پر گئے تو ساری گراونڈ پر مذکورہ لیڈی کے سوا اور کوئی نہ تھا ، جہاں یہ اپنی حشرسامانیوں کے ساتھ ایک ٹرالی لیئے تمام ڈسٹ بنز ( کچرے کے ڈبے) کے اندر دستانے پہنے ہاتھوں اور ایک کیچر نما چھڑی کی مدد سے استعمال شدہ پلاسٹک کی بوتلیں اور پیپسی ، کوکا کولا کے ڈبے نکال رہی تھیں بنا کسی جھجک اور شرم کے بلکہ بڑی خود اعتمادی اور بھرم کے ساتھ ۔ کچرے کے ہر بڑے ڈبے سے بوتلیں نکال نکال کر اپنے کالے بڑے تھیلے میں ڈالتی رہیں ، تھیلا بھر گیا تو یہ جا وہ جا ۔
ہم میاں بیوی یہ سب کچھ دیکھکر بھونچکے رہ گئے ۔ سچ پوچھیئے تو شدید صدمہ ہوا کہ کل تک تو یہ لیڈی محفل ِ جان اور زندگی سے بھرپور متحرک بجلی لگ رہی تھیں اور آج یوں کہ ہمیں کرنٹ لگ گیا ۔
گھر پہنے ، برخودار سے پوچھا ” یا ابنی یہ ماجرا کیا ہے ” اُس نے کہا ” ابو جی یہ آنٹی ہوم لیس ( بےگھر ) ہیں اور گورنمنٹ کے اولڈ ہوم میں امدادی اور انسانی بنیادوں پر مفت قیام ، طعام اور آرام کر رہی ہیں مگر ذاتی اخراجات کی بارآواری کی خاطر پلاسٹک کی بوتلیں اور کینز اکھٹے کرکے ری سائیکل والوں کو پانچ سینٹ فی بوتل کے حساب سے فروخت کرکے باعزت اور اپنے پسینے کی حلال روزی کما رہی ہیں ”
ہمارا جی چاہا اُسی وقت الٹے قدموں جائیں اور اس عظیم عزت مآب لیڈی کو جھک کر آداب بجا لائیں اور مودبانہ سیلوٹ بھی پیش کریں ۔ آفرین ہے ایسی لیڈی پر جو زندگی سے بھرپور لُطف بھی لیتی ہیں اور اخراجات ادا کرنے کیلیئے باعزت باوقار کام بھی کرتی ہیں بنا کسی کے آگے ہاتھ پھیلائے اور اپنی ہی نظروں میں خود کو بنا گرائے ۔
اس عالم ِکشمکش میں میر تقی میر کا شعر قدرے ترمیم کے ساتھ دھیان میں آیا اور ہمیں تسلی و تشفی دے گیا ۔
ہم ہوئے تم ہوئے میر ہوئے
انکی ” عظمت ” کے سبھی اسیر ہوئے ۔

Leave a Comment