تنقید اور تخلیق کے رشتے کے سلسلے میں کئی نظریات کارفرما ہیں – ایک دبستان فکر تخلیق کاروں اور فنکاروں کا ہے ، جو تنقید کو بالکل رد کرتا ہے اور اسے دوسرے درجے کا مقام دیتا ہے – اس کے لئے وہ جواز یہ پیش کرتا ہے کہ تخلیق کے وقت خالق کا ذہن جن مراحل سے گزرتا ہے وہ ناقد کو میّسر نہیں آ سکتا – اس لئے خالق اور ناقد کا درجہ کبھی برابر نہیں ہو سکتا – اس لئے بہت سارے خالقین ادب اپنے اوپر ایک برتری کا احساس طاری کئے رہتے ہیں اور وہ اس امر کو فراموش کر دیتے ہیں کہ کوئی بھی بڑا خالق / فنکار / تخلیقی فنکار اپنے عمل میں پہلے ناقد ہوتا ہے – وہ اپنے تجربات و مشاہدات سے جو تاثرات قبول کرتا ہے – اس میں فنکاری کے وقت رد و قبول کی منزلوں سے گزرتا ہے – اس کی نگاہوں میں موضوع کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی موضوع از خود غالب کے خیال میں :
آتے ہیں غیب سے یہ مضامین خیال میں
کے مصداق ابھرتا ہے – مگر فنکار کی جس بات پر نگاہیں مرکوز ہوتی ہیں اور جس امر پر اس کا ذہن لگا ہوا ہوتا ہے – دراصل وہ ہیت ہے جس کے پیمانے میں ڈھال کر وہ اپنی شراب کو دو آتشہ بنانا چاہتا ہے اور اس وقت یقیناً خالق / فنکار ، فنکار نہیں رہتا ، ناقد بھی ہوتا ہے – یہی وہ بنیاد ہے جس نے ارسطو کو اپنے استاد
افلاطون کی نکتہ چینی پر مجبور کر دیا تھا – یہی وہ بنیاد ہے جس پر آج تک افلاطون کے نظریہ نقل کی رد ہوتی ہے اور یہ با ضابطہ طور پر تسلیم کیا جاتا ہے کہ فن اگر نقل بھی ہے تو اس کو اصل بنانے میں تخیل کا بڑا ہاتھ ہوتا ہے – دراصل فنکار / خالق کا ایک ہی وصف اس کا امیجینیشن اسے امتیاز بخشتا ہے – گویا یہ تخیل کی کارفرمائی ہے جو فنکار کو ایک سے الگ اور سبھوں سے منفرد بناتی ہے – ورنہ خالق / فنکار بھی فن کے لئے خام مواد کائنات سے ہی اخذ کرتا ہے – اس لئے یہ تصور کہ خالق کوئی ماورائی قسم کی چیز ہوتا ہے ، غلط ہے – شاعری کے سلسلے میں ٹی ایس ایلیٹ کا یہ جدید نظریہ کہ شاعری وہبی نہیں ہوتی بلکہ اس کی تخلیق میں شعور کا بڑا دخل ہوتا ہے ، آج ہمہ گیر تصور ہے – ایسی صورت میں یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ خالق کا شعور اور تخیّل بیک وقت کار فرما ہو کر کوئی شاہکار کی تخلیق کرتا ہے تو کیا ناقد محض شعور سے کام لیتا ہے -؟
اس کا جواب یوں دیا جا سکتا ہے کہ ادب کا ناقد جہاں شعوری طور پر کسی فن پارے کا محاسبہ کرتا ہے ، تجزیہ کرتا ہے ، تحلیل کے مرحلے سے گزرتا ہے – وہیں وہ اپنے امیجینیشن کی کارفرمائی سے فائدہ اٹھاتا ہے – کیونکہ وہ تحلیل اور تجزیے کے مرحلے میں بہت سے ایسے نکتے کی طرف اپنے ذہن و دماغ کو اور اپنے محسوسات کو متوجہ ہوتا ہوا محسوس کرتا ہے جو فن کہنیات میں پنہاں ہوتے ہیں اور جب وہ اپنی ذہانت اور اپنے قوت احساس سے ان نکتوں کو واضح کرتا ہے تو اس وضاحت میں اس کی یہ بھی کوشش ہوتی ہے کہ اس کا عمل میکانیکی نہ ہو اور اس کی باتیں تخلیقی انداز میں سامنے آئیں – یہی انفرادیت بخشنے کی کاوش تنقید کو تخلیق کے مرحلے میں لے جاتی ہے – اس وقت ناقد ، ناقد نہیں رہتا بلکہ اس فن پارے میں وہ اپنے تمام تجربات ، مشاہدات و مطالعات کے استغراق کی منزل میں ہوتا ہے جہاں اس کا ساتوں طبق خود روشن نظر آتا ہے – یہی عالم بے ہوشی اور بے خودی جو خالق / فنکار کا سرمایہ حیات ہے ، ناقد کا مقدر بن جاتا ہے اور پھر تجزیہ / تحلیل / تنقید کا جب وہ ما حصل سامنے لاتا ہے تو گویا وہ تخلیق / ادبی تخلیق کی از سر نو تخلیق پیش کرتا ہے – خالق اور ناقد کا یہ رشتہ اٹوٹ ہے – لاکھ ایک دوسرے کو سوتن ڈاہ کی صورت میں مطعون کریں مگر ایک کے بغیر دوسرے کے وجود کا تصور ایسا ہی ہے جیسے کسی عورت کے پیٹ سے بغیر باپ کے کسی اولاد کا جنم لینا –
یہی وہ امتیازی وصف ہے جو اگر ناقد پر طاری ہوتی ہے تو ناقد ، متنی تنقید / تاثراتی تنقید کی سرحد سے پرے ہو کر نفسیاتی نیز تخلیقی صورت حال کا حامل ہو جاتا ہے – ویسے بعض حالتوں میں ناقد کا رویہ بالکل میکانیکی ہوتا ہے کیوں کہ اسے فن کی پرکھ کرتے وقت غیر جانبدار بھی رہنا پڑتا ہے – کیونکہ عصبیت تنقید کے لئے زہر ہے – پھر ناقد کو اپنے مطالعہ کی روشنی میں اس فن پارے کا تقابلی مطالعہ بھی کرنا پڑتا ہے – یہ سب صورتیں ایسی ہیں جو تخلیق کے لئے ضروری نہیں سمجھی جاتی – تب ایسی صورت حال میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ تنقید اور تخلیق کا کوئی رشتہ ہے یا نہیں ؟ میرا خیال ہے یہ رشتہ یقینا اور مستحکم ہے –
تخلیق کے وقت بھی خالق / فنکار کا ذہن تنقیدی رویے سے گزر رہا ہوتا ہے – وہ بھی رد و قبول کی منزل سے آشنا ہوتا ہے – ایسے میں کہا جا سکتا ہے کہ اگر خالق / فنکار کا ذہن تنقیدی نہیں ہو تو وہ شاہکار کی تخلیق نہیں کر سکتا –
تنقید کا پہلا اسٹیج تو تخلیق کے وقت ہی آ جاتا ہے – پھر ناقد ،فن کو پرکھنے کے لئے اپنے اوپر وہ کیفیات طاری کرنے کی کوشش کرتا ہے جو کیفیات فن کی تخلیق کے وقت خالق پر طاری تھی – اس طرح ناقد اصلیت کو جاننا چاہتا ہے – گویا ناقد بھی تخلیق اور تنقید دونوں کے فرائض انجام دیتا ہے – ایسی صورت میں اس کا تخیل بھی اپنے طور پر کار فرما ہوتا ہے – لہذا یہی وہ منزل ہے جہاں تنقید اور تخلیق کا رشتہ مستحکم ہوتا ہے