مضمون نویسی ایونٹ . ستمبر 2015

ترجمہ نگاری ایک مشکل صنف ادب تحریر و تحقیق سلمیٰ جیلانی 

کیا ترجمہ نگاری واقعی ادب کی کمتر صنف ہے یا محض اردو کے ادیب تخلیقی وصف سے عاری گردانتے ہیں
عمومی طور پر ترجمہ ایک زبان میں تخلیق پانے والے خیالات کی دوسری زبان میں ابلاغ اور ترسیل کا نام ہے جس میں کسی بھی تحریر کا مرکزی خیال جوں کا توں دوسری زبان کے قاری تک پہنچانا مترجم کا کام ہے جو بظاهر بہت سادہ اور آسان عمل محسوس ہوتا ہے
مگر علمائے لسانیات کے مطابق ترجمہ بیک وقت فن اور ہنر ہے یعنی آرٹ بھی ہے اور سائنس بھی اب دیکھتے ہیں ایسا کیونکر ممکن ہے تو ڈاکٹر مظفر سید کے مطابق ترجمہ ایک نہایت ہی پیچیدہ ہنر ہے کیونکہ مترجم کو نہ صرف مذکورہ دونوں زبانوں پر عبور ہونا چاہئے یعنی متن اور جس زبان میں ترجمہ کیا جا رہا ہے بلکہ موضوع سے مکمل مناسبت اور ہم آہنگی بھی برقرار رہنی چاہئے جس کی بدولت وہ تحریر سے نفسیاتی پیوستگی قائم رکھتے ہوئے تحریر کے جوہر کو ایک سے دوسری زبان میں منتقل کرنے میں کامیاب ہو پاتا ہے اور یوں ترجمہ تخلیقی سطح پربھی اپنے آپ کو منوا لیتا ہے
چونکہ مترجم کو نہ صرف تحریر کے مرکزی خیال سے روگردانی کی اجازت نہیں ہوتی بلکہ وہ جملوں میں بھی اپنی طرف سے کوئی تحریف یا تبدیلی کرنے کا مجاز نہیں ہوتا
اس لئے اکثر یہ مفروضہ قائم کر لیا جاتا ہے کہ اس کی ترجمہ کی یہ کاوش ادب میں کسی کم تر درجہ پر فائز ہے
حالانکہ مترجم مختلف تکنیکی تدابیر اور اپنے منفرد اسلوب کی بدولت مرکزی خیال کے ابلاغ اور اس کی مکمل ترسیل کا کام لیتا ہے اور اس کی روح کو بچانے کے لئے بھی ایسے الفاظ اور محاوروں کا استعمال کرتا ہے جو تحریر میں موجود مصنف کی سوچ اور بین السطور مفھوم سے بھی پوری طرح انصاف کرتے ہوں کیونکہ یہ محاورے اور ضرب المثال جو اصل زبان میں اپنے ماحول کے مطابق مختلف انداز میں پیش کئے گئے ہوتے ہیں اور ان کا لفظی ترجمہ تحریر کی ہیئت اور مقصدیت ہی بدل سکتا ہے
مثال کے طور پر جیمز جوائس کے افسانے دی سسٹرز کا ترجمہ کرتے ہوئے مجھے بیسویں صدی کے اوائل کے آئر لینڈ کی تہذیب و ثقافت کا گہرائی سے مطالعہ کرنا پڑا تاکہ میں اس کہانی میں استعمال ہونے والے مخصوص محاوروں اور اس دور کی فضاء کو صحیح طور پر سمجھ سکوں جو اس میں موجود ہے اور اسے جوں کا توں آج کے اردو زبان کے قاری تک منتقل کر کے کہانی سے انصاف کر سکوں ، اب مترجم اپنے ہنر میں کس حد تک کامیاب ہے یہ قاری کی صوابدید پر بھی منحصر ہے
ترجمہ ایک فن کیوں ہے ؟اس سوال کا جواب تلاش کرنے کے ضمن میں کہا جا سکتا ہے کہ مترجم تحریر کے مرکزی خیال ،اس کے نفسیاتی و ثقافتی پہلو، اس کی تمام جزیات کے ساتھ ساتھ تحریر کے اصل جوہر یعنی اس کی روح اور مصنف کی اس سوچ کو بھی دوسری زبان میں منتقل کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے یہی مترجم کی وہ تخلیقی سوجھ بوجھ اور احساس کی وہ سطح ہوتی ہے جس کے ذریعے وہ اصل خالق کے ان محسوسات کو سمجھ لیتا ہے اور یوں ایک دوسری زبان میں وہ تحریر از سر نو جنم پاتی ہے لیکن مترجم ادبی دیانت داری کا بار اٹھاتے ہوئے اسے اپنے نام کرنے کے بجائے دوسری زبان کے قاری تک اصل خالق کی تحریر پہنچانے کا فریضہ انجام دیتا ہے اور خود خاموشی سے ایک طرف ہوجاتا ہے ، لیکن یہاں مترجم دو تہذیبوں اور ان کی ثقافت مابین ایک پل کا کام بھی کرتا ہے اور آج کے دور عالمگیریت میں اپنی ثقافت ، روایات ، سوچ اور فکر کو آگے بڑھانے میں اپنا بھرپور کردار ادا کرتا ہے
گویا تراجم نگار صرف ادیب ہی نہیں بلکہ اپنی تہذیب و ثقافت کے نمایندہ سفیر بھی ہیں جو انسانی معاشرے میں یگانگت اور افہام و تفہیم کی فضاء پیدا کرنے میں معاون و مدد گار ہوتے ہیں ، اس کے برعکس اگر یہی کام غلط نیت و ارادے یا ناقص فن و ہنر کے ساتھ کیا جائے تو یہی ترجمہ شدہ تحاریر معاشرے میں فساد برپا کرنے کا سبب بھی بن سکتی ہیں گویا ترجمہ وہ پل صراط ہے جس میں فن و ہنر کا توازن ہی تحریر کو ایک سے دوسری دنیا میں بخوبی پہنچانے میں کامیابی کی کلید ہے
حوالے :
اس مضمون کی تیاری میں مندرجہ ذیل مضامین اور کتابوں سے مدد لی
١. ترجمہ نگاری کا فن اور روایت مصنف قمر رئیس ، تاج پبلشنگ ہاؤس دہلی
٢. فن ترجمہ نگاری مصنف خلیق انجم ، انجمن ترقی اردو دہلی
٣. مبشر رضا کے اون لائن مضمون ” فن ترجمہ کی نظری تعریف ، مبادیات و مشکلات ، مطبوعہ سالنامہ معارف رضا ٢٠٠٩

 

Leave a Comment