مضمون نویسی ایونٹ . ستمبر 2015

“افسانے میں علامت کی بات ” ……….. (سید تحسین گیلانی


علامتی شاعری میں جس طرح ابلاغ کا ہونا شرط ہے اسی طرح علامتی افسانے میں مفہوم کا قابل فہم ہونا بهی ضروری ہے – اگر افسانہ نگار کے اشارے اور استعارے ناقابل فہم ہو جائیں یا ناروا ابہام کا شکار ہو جائیں تو اس سے مصنف کا مقصد فوت ہو جائے گا – اس لیے علامتی افسانہ نگار خواہ کوئی بهی علامت یا استعارہ کیوں نہ استعمال کرے اسے کوئی نہ کوئی ایسا اشارہ ضرور کرنا چاہیے جس سے اس کی مخصوص علامت سمجھ میں آ جائے – افسانے میں رمز و علامت استعمال کرتے ہوئے بڑی احتیاط اور بڑی چابک دستی کی ضرورت ہوتی ہے – چنانچہ افسانوں کے دو امریکی نقاد اور The Kenyon Review (پرانا اخبار ہے ) کے مدیر George Lancing اور Rabie Macauley نے افسانہ نگاروں کو مشورہ دیا کہ وہ علامت کا استعمال بڑے محتاط انداز میں کریں کیونکہ علامت سجاوٹ کی چیز نہیں ہے جو کرسمس ٹری پر آویزاں کر دی جائے :
“The apprentice writer should approach the matter of Symbolism with considerable caution Symbols are not ornaments to be hung on the Christmas tree of the story ; They can’t be fabricated in an attempt to give the fiction an air of depth and significance; They are serious and useful only when they are born from the narrative itself.”
زیادہ تر علامت پسند افسانہ نگار علامتی طرزِ اظہار کے شوق میں فن افسانہ نگاری کے بنیادی تقاضوں کو فراموش کر دیتے ہیں اور پلاٹ اور کردار نگاری کی ضرورت اور اہمیت سے انکار کرنے کے ساتھ ہی وحدت تاثر Unity of impression کی ضرورت سے بهی انکار کر دیتے ہیں –

پروفیسر گوپی چند نارنگ ، علامتی افسانہ نگاری کے فن سے بحث کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
” افسانہ علامتی ہو یا تجریدی اس میں لغوی معنی صرف ایک اشارہ کر دیتے ہیں باقی کام پڑهنے والے کے ذہنی استعداد کا ہے – دراصل لفظوں کے ظاہری منطقی اور لغوی معنی کے علاوہ اور بهی معنی ہو سکتے ہیں ایسے افسانوں کا مطالعہ کرتے وقت اگر یہ بات نظر میں رہے تو اس سے لطف اندوز ہونا چنداں مشکل نہیں -”
یہ بات قابل توجہ ہے کہ علامت تک رسائی کے لیے قاری کو معانی اور مفہوم میں واضح اشاروں میں جھانکنا ہو گا –
اگر ہم ماضی میں جھانکیں تو پتہ چلتا ہے کہ یورپین علامت پسند ادیبوں اور شاعروں نے اپنی علامتیں عام طور پر قدیم کلاسیکی ادب یا مائتهالوجی سے حاصل کی تهیں- انہوں نے اپنے علامتی اظہار کے لیے کلاسیکی اور اساطیری کرداروں سے پورا استفادہ کیا تها – چنانچہ شیلی نے ” “پرومیتهوس ان باونڈ” ! اور کامو نے “میتھ آف دی سی سی فس” لکها تو ہم نے فوراً سمجھ کہ شیلی کا آج کے دور میں پرومیتهوس اور کامو کا سی سی فس سے کیا مراد ہے –
ذرا اور پیچهے چلتے ہیں –
فرانسیسی ادب میں علامت پسندی کی تحریک کی ابتداء ہونے سے پہلے امریکہ میں ہرمن میل ویل نے 1851 میں دنیا کا پہلا علامتی ناول ” موبی ڈک” تحریر کیا جس کی بدولت میل ویل کو دنیا کے افسانوی ادب میں رمزیت کا پیش رو قرار دیا گیا – ہرمن میل ویل کے لیے ساری دنیا ہی ایک علامت تهی – لہذا اس نے حقیقت کی تلاش میں بحر بیکراں کا وسیع تر سفر کیا اور عمیق اور وسیع و عریض سمندر کو راز ہائے سر بستہ کی علامت بنا کر ایک نئے مفہوم میں پیش کیا ” موبی ڈک” کے بعد دنیا کے افسانوی ادب میں متعدد علامتی افسانے ، ڈرامے اور ناول لکهے گئے جن میں نٹ ہٹس کا ” پین ” …..ٹامس مان کا ” میجک ماونٹین ” اور ڈاکٹر فاسٹس کافکا کا ” دی ٹرائیل ” ” دی کاسیل ” اور سارتر کا “دی فلائز “……البیر کامو کا ” پلپیگ “اور “آوٹ سائیڈر” ایسے ہی جارج آردیل کا” انیمل فارم” اور یوجین اونیل کا” مورننگ بیکس الیکٹرا ” اور ” بوڑھا اور سمندر ” قابل ذکر ہیں –
اردو میں رمزی اور علامتی افسانے لکهنے میں جنہوں نے گہری دلچسپی لی ان میں سب سے پہلے احمد علی کا نام آتا ہے وہ اردو کے علاوہ انگریزی کے بهی ادیب تهے اور انگریزی پڑهتے تهے اور یورپ کے جدید ترین ادبی رجحانات سے بخوبی واقف بهی تهے – ان کے جن افسانوں میں رمزی و علامتی فضا موجود ہے وہ ” قید خانہ ” “ہمارا کمرہ ” اور ” موت سے پہلے ” اہم ہیں – بعد ازاں تخلیق کاروں کی ایک بڑی کهیپ نے علامتی اظہار کو اپنایا اور قابل قدر علامتی افسانے لکهے گئے جن میں …بلراج کومل کا ” کنواں ” کلام حیدری کا ” کٹا ہوا درخت ” رام لعل کا ” چاپ ” انور سجاد کا ” روپ جنم ” رشید امجد کا “قطرہ سمندر قطرہ ” انتظار حسین کا” آخری آدمی ” منشا یاد کا “تیرہواں کھمبا ” اور سریندر پرکاش کا “دوسرے آدمی کاڈرائنگ روم” قابل توجہ ہیں – جو اس وقت مجهے بے اختیار یاد آ رہے ہیں – ان افسانہ نگاروں نے روایت بتدریج علامت نگاری کی طرف پیش قدمی کی اور ان کے فن میں گہری ریاضت موجود نظر آئی اور سب سے بڑا فرق جو ان کو دوسروں سے الگ کرتا ہے وہ یہ ہے کہ ان کے ہاں تجربے کو تخلیق میں سمو نے اور پهر اس سے نئی معنویت اجاگر کرنے کا زاویہ بے حد نمایاں ہے

Leave a Comment