معزز قارئین آج میں آپ سب سے وہ گرہیں کھولنے جا رہی ہوں جو میں نے اپنے تخلیقی سفر پر روانگی کے وقت باندھی تھیں ۔۔۔
1. افسانہ نگار کو لکھتے وقت کبھی سکہ بند اصول نہیں رکھنے چاہیئے ۔۔
کیا خوب محترم المقام جناب مشرف عالمی زوقی صاحب نے کہا کہ بڑا افسانہ نگار وہ ہوتا ہے جو اپنے اسلوب کو بھی توڑتا یعنی بدلتا رہتا ہے ۔ صد فیصد متفق ہوں ۔۔
2. تشخیص اور علاج
لکھنے والوں کو میں “ قلمی طبیب ” کہتی ہوں ۔ اور طبیب کا سب سے پہلا اور اہم کام ” تشخیص ” ہوتا ہے پھر اس کے بعد علاج آتا ہے ۔ یہ دھیان رہے کہ تشخیص ہر طبیب کر سکتا ہے پر علاج ہر طبیب کے پاس ممکن نہیں ۔ اب چونکہ ایک طبیب کی زمیداری ہے کہ تشخیص اور علاج دونوں کرے ، پر جب بھی کہیں طبیب خود کو علاج سے معذورپاتا ہے تو وہ اپنا مریض اس مرض کے ماہر طبیب کے پاس علاج کے لیئے بھیج دیتا ہے ۔ ماہر طبیب وہ ہوتے ہیں جو اپنی توجہ اور کام کسی خاص شعبے کے لئے مخصوص کر لیتے ہیں اور ایک ہی نقطے پر خو دکو مرکوز رکھتے ہیں ۔ ایسے طبیب کنسلٹنٹ اور رسرچ اسکالرز کہلاتے ہیں ۔
بلکل اسی طرح ہر قلمی طبیب جب اپنی معاشرتی پریکٹس شروع کرتا ہے تو سب سے پہلے آسان ، آسان معاشرتی بیماریوں کی تشخیص کرتا ہے پھر جیسے جیسے اس کے تجربات بڑھتے ہیں وہ نازک اور حساس موضوعات کی تشخیص کرنا شروع کر دیتا ہے ۔ اگر ہم کھلی آنکھ سے مشاہدہ کریں تو معاشرے میں آسودگی اور ناآسودگی دونوں ساتھ ساتھ ہیں ۔۔ جہاں چور ڈاکہ ذنی ، ریپ ، ڈومیسٹک وائلینس، چالڈرن وائلینس ، عدم برداشت ، منافقت ، وہاں محبت ، سلوک ، رشتے ، حقوق کی پاسداری اور احترام بھی ہے ۔۔ اور قلمکار دونوں پر دسترس رکھنے کی کوشش میں نڈھال نظر آتا ہے ۔ یہی وہ مقام ہے جہاں قلمکار کو اپنے لیئے اپنی راہ کا انتخاب کرنا ہوتا ہے یعنی اسلوب اور موضوعات کے چناؤ کا رخ متعین کرنا ہوتا ہے ۔یعنی ماہر طبیب بن جاتا ہے ۔ یہاں یہ بات بھی غور طلب ہے کہ عمومی طور پر قلم کاروں پر یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ وہ مسلے کا حل نہیں بتاتے۔ بہت سارے موضاعات ایسے ہوتے ہیں جہاں قلم کار کوئی ناصح یا مصلح نہیں ہو سکتا ۔ وہ ایمانداری سے اپنے ارد گرد جو دیکھتا ہے اسے بیان کر دیتا ہے۔ ایسے میں قلم کار کا کام مسلہ کی جانب توجہ دلوانا ہے اور اسکی جہتیں کھول کر سامنے لانا یعنی صرف تشخیص ہی اس کا منصب ہوتا ہے ۔ اس کا کام حل تجویز کرنا نہیں۔ اس لیئے بھی نہیں کہ مختلف ماحول اور مختلف حالات میں حل بھی مختلف ہو گا ، اس لیئے وہ علاج پڑھنے والے پر چھوڑ دیتا ہے ۔
3. قلمکار کو کشادہ دل و زہن ہونا چاہیئے
بحثیت قلمکاراسے کشادہ دل و زہن ہونا چاہیئے بلکل اس طرح جیسے کوئی طبیب اپنی کلینک کسی طوائف اور شرابی و ذانی کے مرض کی تشخیص و علاج کے لیئے بند نہیں کر سکتا بلکل ویسے ہی کوئی بھی قلمکار ایسے لوگوں کے دکھ درد اور استحصال پر لکھنا گناہ نہیں سمجھ سکتا اور نہ ہی ان کے کردار اپنی ادبی دائروں سے باہر کر سکتا ہے ۔ اب یہاں پھر وہی بات ہے کہ ہر طبیب تشخیص کر سکتا ہے پر علاج نہیں ۔۔ سو قلمی طبیب بھی تشخیص ضرور کر سکتا ہے لیکن اس کا علاج یعنی لکھ سکے یا نا یہ اس کے ہنر پر منحصر ہے ۔ اس لیئے قلمکار کو بھی چاہیئے کہ جس بات کو لکھنے پر دل آمادہ نہ ہو ، ان کا قلم آسودہ نہ ہو یعنی جس موضوع پر اسے دسترس نہ ہو ۔۔ جس موضوع کے وہ مثبت اور منفی پہلووں پر بات نہ کر سکے ۔۔ اسے ان موضوعات پر لکھنے سے اس وقت تک پرہیز کرنا چاہیے جب تک وہ مشاہدہ مزید نہ کر لے اور مطمعین نہ ہو ۔ ہاں اگر کوئی قلمکار ایسے موضوعات پر لکھنا ہی نہیں چاہتا تو یہ اس کی اپنی مرضی اور خوشی ہوگی پر اسے دوسروں کے لکھے ہوئے پر اعتراض کرنے کا کوئی حق نہیں ۔۔
4.. قلمکار کو حدود و قیود کا خیال رکھتا چاہیئے
قلمی طبیب کی زمیداری ہے کہ معاشرتی ناسور کی مطلوبہ روحانی بیماری کا نقشہ یوں کھینچے جیسے اسے کوئی دیکھ رہا ہے یا وہ کسی کے سامنے ہے ۔۔ جیسے ماہر طبیب کو تشخیص اور علاج کے دوران بہت سے جسمانی چیک اپ اور سرجری کرنی پڑتی ہے ۔۔۔۔ پر وہ کسی مریض کو نہ تو پورا ننگا کرکے اس کی تشخیص کرتا ہے اور نہ پورا ننگ دھڑنگ کر کے اس کی سرجری کرتا ہے ۔۔ وہ کسی کی موجودگی (لازمی حصہ) میں اپنے مریض پر چادر اوڑھا کر مطلوبہ جسمانی حصے کا معائینہ کرتا ہے اور اس کی جراحی کرتا ہے ۔ اسی طرح سے قلمی طبیب کی زمیداری ہے ۔۔ سوچنا اتنا سا ہے کہ ایک قلمی طبیب ہونے کے ناطے کہاں تک بتاناضروری ہے کہ بیماری سمجھائی جا سکے اور کتنا ننگا کرنے سے علاج ممکن ہے ۔ یہ دونوں عمل ایک کاغذ پر لکھتے وقت یہ سوچنا ہے کہ یہ کاغذ نہیں آپریشن تھیٹر ہے اور یہاں پر خاکروب سے لے کر ہر شعبہ کے نرس ، کنسلٹنٹ ، ریسرچرز ہمہیں دیکھ رہے ہیں اور سب سے زیادہ بیمار کے لواحقین ہمیں دیکھ رہے ہیں کہ ہم ان کے مریض کی عزت ، اخلاق اور شرم و حیا کا کتنا خیال رکھا گیا ۔ کیونکہ طوائف ،ریپ کرنے والے ، قتل کرنے والے سب انسان ہیں اور اپنے رشتوں کے ساتھ رہتے ہیں ۔۔ وہ قانون کی نطر میں مجرم ہو سکتے ہیں پر وہ طبیب کے لیئے صرف ایک انسان اور ان کی بیماریاں ہیں ۔۔۔۔
5. قلمی زمیداری
قلمکار خود اپنے پیرا میٹرز بناتا ہے ۔۔ اپنی حدود و قیود کا خیال رکھتا ہے ۔۔۔ اپنی راہیں متعین کرتا ہے ۔ یہ مسلہ انفرادی ہے ۔۔۔ کوئی کسی پر اتھارٹی نہیں اور نہ ہی کوئی کسی پر کسی کا قانون لاگو کر سکتا ہے اور نہ ہی کرنا چاہیئے ۔۔۔۔ اپنی قلمی حدیں اور سرحدیں خود کھنیچنی پڑتی ہیں اور ہر قلمکار کو ایمانداری سے یہ زمیداری ادا کرنی چاہیئے ۔ اسی زمیداری کو نبھاہتے ہوئے قلمکار کی فطری شرو حیا ، سنجیدگی اور موضوع کے ساتھ انصاف کا پردہ کھلتا ہے یعنی اس نے فحش نگاری “ چسکے اور مسالے “ کے لیئے لکھی ہے یا جراحت کے لیئے اس کی مجبوری بنی ۔۔ اگر تو وہ کھلا اظہار ، تقاضا تحریر تھا تو حقیقت نگاری تھی اور اگر اس کی چنداں ضرورت نہیں تھی اور بات ڈھکے چھپے بھی سمجھ آسکتی تھی تو فحش نگاری تھی ۔۔۔
( یہ پیرا میٹرز میرے اپنے ہیں کسی قلمکار کا اس سے متفق ہونا چنداں ضروری نہیں )
قارئین ، میرا تعلق شعبہ نفسیات اور ڈرگ ہیلتھ سے ہے ۔۔ مجھے ہر دوسری طوائف میں ایک پانچ برس کی بچی مل جاتی ہے جسے بہلا پھسلا کر کبھی سوتیلے باپ نے تو کبھی اس کے اپنے ہی باپ نے سب سے پہلے اسے ریپ کر کے طوائف بنایا ہوتا ہے ۔۔ میں ایک ایسے مریض کو بھی جانتی ہوں جس کے ہر فیملی ممبر نے ایک دوسرے کے ساتھ جسمانی تعلقات رکھے ہوئے تھے ، جس میں ماں باپ بہن بھائی بھی آپس میں بھی شامل رہے ہیں ۔۔۔۔ ۔۔۔ سوچیئے ان کی نفسیات کیا ہو گی اور اس زہنی پسماندگی اور احساس جرم کیا علاج ہو گا ۔۔۔ آجکل دو قاتل میرے زیر علاج ہیں اور الحمدوللہ سب سدھار کی طرف آ رہے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں کسی پر شفاکے دروازے نہیں بند کر سکتی ۔۔۔ شفا منجانب اللہ ہوتی ہے اور ہر انسان کا بنیادی حق ہوتا ہے ۔۔ اسی طرح سے قلمی شفا بھی منجاب اللہ ہوتی ہے ۔ ہم کسی پر اس شفا کے دروازے بند نہیں کرسکتے ۔۔۔ کیا پتہ ہمارے قلم میں اتنی شفا ہو کہ ہم ایسے کرداروں کی نشاندہی کریں تو دو چار اپنی راہیں بدل لیں اور آہستہ آہستہ معاشرہ شفایاب ہو جائے ۔۔۔
جس طرح سے ہر ڈاکٹر ، مسیحا نہیں ہوتا ۔۔ اسی طرح سے ہر قلمکار اچھا قلمکار نہیں ہوتا ۔ تخلیقاروں کو شفا بانٹنے کے ہنر کے واسطے خدا پاک سے ہر وقت دست بستہ
مجسم دعا رہنا چاہیئے۔