کیا میں ادب کو معاشرے سے جوڑنے کی جسارت کرسکتا ہوں?
یہ تو ایسا موضوع ہے جس میں اکثر لوگ کسی قسم کی دلچسپی نہیں رکھتے، اور جو رکھتے ہیں وہ اس پر دانت کچکچانے لگتے ہیں۔
ادب کو معاشرے سے جوڑنا ایسا ہی گناہ ہے جیسا کہ کسی آزاد خیال کے سر پر ٹوپی جمانا۔
مشکل یہ ہوتی ہے کہ آپ جب سوچنے لگتے ہیں تو خود کو خلا میں نہیں پھینک سکتے۔
آپ کا دماغ بھی ایک ایسے ہی خلا میں قلابازیاں کھاتا جاتا ہے جہاں ہر سو وہی لوگ گھوم پھر رہے ہوتے ہیں جو آپ کے مادی وجود کے گرد لشکارے دکھاتے ہیں۔
آپ جب خلائی مخلوق کی داستان سناتے ہیں تو آپ ایک مخصوص دائرہ ادب میں محدود ہوجاتے ہیں۔ اور اس چھاپ کو آپ پسند بھی کرنے لگتے ہیں۔
لیکن کیا کیا جائے کہ آپ کے ارد گرد رہنے والے بہت سے لوگ کچھ اور توقع کررہے ہوتے ہیں۔
چلیں سیکس کے موضوع پر بات کرتے ہیں۔ کوئی لکھنے والا سیکس کو موضوع بناکر کہانی کیوں لکھتا ہے?
کیا سیکس ہمارے معاشرے کا ایک اہم موضوع اور مسئلہ نہیں ہے?
یا یہ خلا میں رو بہ عمل لائی جانے والی کوئی دل پذیر چیز ہے?
لیکن کیا یہ اہم اور قابل غور سمجھی جانے والی بات نہیں ہے کہ جس معاشرے میں اس کے اقدار کے تحت جس حد تک آزادی ہوتی ہے، اسی حد تک کسی خاص موضوع کو زیر بحث لایا جاسکتا ہے۔
معاشرے کا وجود افراد سے ہے، افراد کی اکثریت جن قدروں کی پاسداری کرتی ہے، خواہ وہ ظاہری طور پر ہو یا حقیقی طور پر، معاشرے میں جنم لینے والے کسی نئے اور محدود طبقے کو حق کے نام پر یہ آزادی نہیں دی جاسکتی کہ وہ اکثریت کے جذبات مجروح کرے۔
مجھے یہ مضحکہ خیز حقیقت بیان کرنے دیجیے کہ جب اکثریتی طبقہ اقلیتی طبقے پر کسی زاویے سے تنقید و تشنیع کرتا ہے تو ہاہاکار مچ جاتی ہے اور انسانی حقوق کا واویلا مچایا جاتا ہے، اس وقت اظہار رائے کی آزادی کا فلسفہ یاد نہیں آتا۔
لیکن جب یہی اقلیتی طبقہ اپنے ڈھول پتاشے لے کر اکثریتی طبقے پر چڑھ دوڑتا ہے تو اسے اظہار رائے کی آزادی کہہ کر اخلاق سے متعلقہ تمام ذریں اصولوں کو سر عام پامال کرنے لگتا ہے۔
چنانچہ اگر کوئی ادیب سیکس پر لکھتا ہے تو وہ انہی مسائل کو نمایاں کرے گا جو معاشرے میں پائے جاتے ہوں گے۔
ایسا تو نہیں ہوسکتا کہ وہ خلائی مخلوق کے درمیان سیکس کے رموز پر کہانی لکھنے بیٹھے۔
ہاں، آپ چاہتے ہیں کہ معاشرے کے اکثریتی رجحان کو توڑ دیں۔ تو یہ کارنامہ انجام دینے کے بعد آپ کو ہر قسم کے رد عمل کا انتظار کرنا چاہئے اور اگر آپ معقول آدمی ہیں تو جس طرح آپ نے رائے کا کھل کر اظہار کیا ہے، اسی طرح پڑھنے والوں کو بھی یہی حق دیں گے۔
ہمارا معاشرہ تو ویسے ہی ادب سے بے بہرہ ہوتا جارہا ہے، اگرچہ یہ بات بار بار کہی جارہی ہے کہ پہلے کے مقابلے میں اب کتابیں زیادہ شائع ہورہی ہیں، لیکن یہ نہیں سوچا جاتا کہ پرعزم پاکستانیوں نے اپنی تعداد کتنی بڑھادی ہے۔ اور پھر یہ بھی قصداً نظرانداز کیا جاتا ہے کہ کتاب کتنی چھپتی ہے اور کتنی تعداد میں خرید کر پڑھی جاتی ہے۔
جس معاشرے میں کماحقہ ادب پڑھا جاتا ہے، وہ مجموعی طور پر ادب شناس اور باادب ہوتا ہے۔ اس کے طور طریقے باوقار ہوتے ہیں۔
کیا یہ اہم بات نہیں ہے کہ جس معاشرے سے ادب چھین لیا جاتا ہے، وہ اپنا وقار کھو دیتا ہے۔ تو بتائیے میں کس طرح ادب کو معاشرے سے جدا کرکے دیکھوں؟