احمد بشیر ایک دبنگ صحافی ، کالم نگار اور ناول نگار ہونے کے ساتھ ساتھ صاحب ِ طرز خاکہ نگار کے طور پر جانے جاتے ہیں ۔
احمد بشیر کا نام ان کے والد شیخ غلام حسین نے اپنے نام کی طرز پر شیخ بشیر حسین رکھا۔بشیر حسین کے علاوہ ان کی دو بیٹیاں اور ایک اور بیٹا تھا۔ اختر عکسی ۔۔۔جو جوانی ہی میں مر گیا ۔بشیر حسین نے ابتدائی تعلیم ایمن آباد ہی سے حاصل کی۔ اور اس کے بعد بی اے تک کی تعلیم سرینگر میں حاصل کی جہاں ان کے والد ہیڈ ماسٹر تھے۔بی اے کرنے کے بعد بشیر حسین نے شاعری شر وع کر دی اور اپنا نام بشیر رومانی رکھا۔( ممتاز مفتی نے انہیں اپنے پس نوشت ناول میں جا بجا بشیر مانی لکھا ہے )۔ مگر پھر شاعری ترک کر دی۔اور روایت شکن طبیعت کے تحت اپنا نام بشیر حسین کے بجائے احمد بشیر رکھ لیا اور پھر اسی نام سے دنیائے ادب و صحافت میں اسی نام سے شہرت پائی۔
حمید اختر اپنی احمد بشیر سے پہلی ملاقات کے بارے میں بتاتے ہیں ۔ ’میں انیس سو چھیالیس میں ساحر لدھیانوی کے ساتھ مل کر بمبئی گیا ۔میں سجاد ظہیر کے ہاں ٹھہرا ہوا تھا۔ ایک دن کرشن چندر کے گھر میں ممتاز مفتی سے ملاقات ہوئی ۔اس کے ساتھ وہاں پر ایک نوجوان کو لہک مہک کر بولتے دیکھا۔ پتہ چلا یہ احمد بشیر ہے اور یہ لاہور سے مفتی صاحب کے ساتھ ایک فلمی رسالہ نکالنے کے لئے بمبئی آئے ہیں۔ یہ میری احمد بشیر سے پہلی ملاقات تھی۔ اس کے بعد جب پاکستان کے بننے کے ہنگامے شروع ہوئے تو ممتاز مفتی اور احمد بشیر نے اپنا پروگرام کینسل کر دیا۔
بہر حال احمد بشیر کے ساتھ لاکھ اختلاف کیا جاسکتا ہے مگر ایک بات طے ہے کہ اس نے زندگی بھر نقصان اٹھایا مگر جو جی میں ٹھان لیا اس سے ایک قدم بھی پیچھے نہ ہٹے۔ بہت سی نوکریاں کیں۔جہاں دیکھا اصولوں کے بر خلاف کام کرنا پڑ رہا ہے ۔وہاں استعفٰی دے دیا۔یہ نہیں سوچا کہ آگے کیا ہو گا۔گھر کا خرچ یا چولہا کیسے چلے گا۔ بلکہ میں سمجھتا ہوں کہ احمد بشیر جو اس طوفانِ باد و باراں میں پورے قد سے جو کھڑے رہے تو اس میں ان کی جرأ ت کو سب سے زیادہ جلا بخشنے والی ہستی ان کی اہلیہ اور پھر ان کے بچے ۔۔کہ جنہوں نے اولاد ہونے کا استحقاق جتلاکر اپنے مطالبات کے روڑے ان کی راہ میں اٹکانے سے گریز کر تے ہوئے صبر کیا۔مگر میں سمجھتا ہوں کہ اس بارے میں بھی انکی اہلیہ کا کر دار شامل رہا۔ایک بات بہت اہم ہے کہ باپ اپنی اولاد سے خواہ جی توڑ کر پیار کر تا ہو۔ مگر اولاد کو اس بات کا احسا س دلانے اور باپ کی محبت کی اولاد کی نظر میں قیمت لگوانے والی ہستی صرف ماں ہی ہوتی ہے۔ چنانچہ یہ بات پورے یقین کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ مودی صاحبہ حقیقی معانی میں شریک حیات تھی۔ صغریٰ صدف احمد بشیر کی شخصیت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہتی ہیں کہ میں نے ملاقات سے پہلے انہیں ان کی تحریروں میں دیکھا تھا مگر ان سے میری پہلی ملاقات لاہور میں منعقد ہونے والی عالمی پنجابی کانفرنس ہوئی ۔ وہ بہت پیار سے ملے۔اور بڑی شفقت سے میرے سر پر ہاتھ پھیرا۔ اس دن کے بعد بھی بہت سی ملاقاتیں ہوئی ۔ ان کی بیٹی نیلم احمد بشیر میری سہیلی ہی اسی وجہ سے بنی کہ وہ احمد بشیر جیسے بڑے آدمی کی بیٹی ہے۔اپنے آدرشوں کو نبھاتے ہوئے انہوں نے مالی او رذہنی مشکلات کے باوجو د اپنی اولا د کی پرورش اور انکی توجہ سے غافل نہیں رہے۔ رہینِ ستم ہائے روزگار ہونے کے باوجود انہوں نے اپنی اولاد کو تعلیم کے زیور سے نوازا ۔ بلکہ ان کی چاروں بیٹیاں فنونِ لطیفہ سے گہرا اتعلق ہے جو شاید احمد بشیر کے حسن سلوک اور ان کی گھر میں بے تکلفانہ اور آزادانہ ماحول کا نتیجہ ہے ان کی سب سے بڑی بیٹی ،انیلم احمد بشیر اردو کی بہت اچھی افسانہ نگار ہےْ ۔ ان سے چھوٹی ۔سننبل بڑی سریلی اور کن رس ہے ۔بشریٰ انصاری کی شوبز اور موسیقی کی دنیا میں طوطی بولتا ہے۔ جبکہ ان کی چھوٹی بیٹی ۔اسما ء بھی ڈرامہ اداکار ہے ۔
احمد بشیر کا بیٹا،ہمایوں احمد بشیر امریکہ میں مقیم ہے۔ ادھر ان کی بہن پروین عاطف اردو کی مشہور ادیبہ ہے۔ الغرض ان کی خاندان ایک گلدستہ ہے۔ مجھے اپنی اس تحقیقی کاوش کے دوران ان کے گھرانے کے افراد سے ملنے کا بار بار رابطہ کر نے کا اتفاق ہواہے۔ عام طور پر یہ دیکھا گیا ہے کہ بڑے آدمی کے اہل خانہ بھی اپنے آپ کو بڑا سمجھنے لگتے ہیں۔مگرمیں نے محسوس کیا کہ احمد بشیر کے اہل خانہ اپنے آپ کو بڑ ا سمجھنے کے بجائے اپنے آپ کو خوش نصیب سمجھتے ہیں کہ وہ اتنے بڑے انسان کی اولاد ہیں ۔ پروین عاطف کو اپنے بھائی اور مودی احمد بشیر کو اپنے شوہرپر ناز ہے۔کسی بھی انسان کی کمائی اس سے زیادہ کیا ہو سکتی ہے کہ اس کے جانے کے بعد اس کی اچھائیاں نہ صر ف محفلوں میں بیان کر کے رونق لگائی جائے بلکہ ان کی اچھائیوں کو اوڑھنے اور پہننے کی بھی کوشش کی جائے ۔ان کی اولا د کے منہ سے اپنے والدکے محبت اور عقیدت بھرے تذکرے سے احمد بشیر کی باس آتی ہے ۔یوں لگتا ہے کہ
احمد بشیر یہیں کہیں موجود،شریکِ گفتگو ہیں۔ان کا مزاج اور ان کا حسن اخلاق ان کی اولاد اور ان کی بہن اور بیگم صاحبہ میں جھلکتا ہے۔
یہاں خاص طورپر ان کے دامادکرنل عباس ( اسماء عرف قلزم کے شوہر) کا ذکر کرنا ضروری ہے ۔جس کے بارے میں جملہ اہل خانہ کا کہنا ہے کہ عباس کو ابا سے عشق تھا۔اس میں ابا کے آدرش اور عادات اس طرح حلول کر گئیں کہ کبھی کبھا ر بقول بشریٰ انصاری ، عباس پر ابا ہونے کا گمان ہوتا تھا۔۔احمد بشیر کی زندگی کے آخری سال اپنے اسی داماد نما بیٹے کی معیت میں گزرے ۔کرنل عباس کی سعادتمندی اور تواضع نے احمد بشیر میں بیٹے کی دوری کے تکلیف دہ احسا س کو قدرے کم کر دیا تھا۔
احمد بشیر نے روزنامہ امروز سے اپنی قلمی زندگی کا آغاز کیا۔انہوں نے ممتاز مفتی کے ساتھ مختلف شعبوں میں کام کیا ۔ہر آمر کے سامنے اور ہر سیاستدان کی آمریت اور اشتراکیوں کی سرمایہ دارانہ ذہنیت اور قول و فعل کے تضاد کے خلاف ان کا قلم ہمیشہ بر سر پیکار رہا۔اسی لئے کہتے ہیں کہ جب میں قلم ہاتھ میں لے کر لکھ رہا ہوتا ہوں تو میں خود کو میدانِ جنگ میں محسوس کر تا ہوں ۔ان کی تحریریں اور ان کے قول وفعل کے راوی ان کے اس موقف کی گواہی دیتے ہیں ۔انہوں نے سرکاری ملازمت کے دوران اور امریکہ میں فلمی ہدایتکاری کی تعلیم کے دوران اور فلم میکنگ کے دوران اپنے اس موقف کو اپنا ہتھیار بنایا ۔حالات سے کبھی مصالحت نہیں کی۔اقبال کا یہ شعر ان کی زندگی اور طرزعمل کی دلیل دیتا ہے :
نہ تو زمیں کے لئے ہے نہ آسماں کے لئے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جہاں ہے تیرے لئے ،تو نہیں جہاں کے لئے ۔
ان کا خاکوں کا مجموعہ ’’ جو ملے تھے راستے میں ‘‘ یونس جاوید نے ان کی زندگی ہی میں ترتیب دیا اور اس کے دو ایڈیشن چھپ چکے ہیں ۔ان کے انگریزی کالموں کا محموعہ ’’ ڈانسنگ ود وولف ‘‘ بھی ان کی زندگی میں چھپ چکا تھا۔اس کے کچھ کالموں کا مجموعہ ’’ خونِ جگر ہونے تک ‘‘ اور واحد ضخیم ناول ’’ دل بھٹکے گا‘‘ بھی چھپ چکے تھے ۔جبکہ ان کی وفات کے بعد ان کے خطوط کا ایک محموعہ ’’ خطوں میں خوشبو‘‘ نیلم احمد بشیر نے تالیف کرکے چھاپا ہے ۔ابھی ان کا بہت کا کام جو کہ بوریوں میں بند کاغذوں کی صورت پڑاہے ۔ سرکاری سرپرستی میں چلنے والے ادبی ادارے اگر اس طرف توجہ کریں تو ان کا بہت سا کام منظر عام پر آ سکتا ہے۔ احمد بشیر کے شاہکار کالم اور مضامین، اردو ادب اور صحافت کے طالبعلموں اور نئے آنے والوں کے لئے رہنما اصولوں کی بنیاد بن سکتے ہیں۔
احمد بشیر ان لوگوں میں سے تھے جو کہ اپنے آدرشوں کی راہ میں آنے والے پہاڑوں کو عبور کرتے ہوئے لمحہ بھر نہیں سوچتے ۔ان کے فکر وعمل اور آدرشوں کی راہ میں مطلق العنان طاقتوں کے پہاڑ آئے مگر وہ ان کا راستہ نہ روک سکے۔گھر میں ان کی راہ کا سب سے بڑا پہاڑ ان کا پیارا بیٹا ہمایوں (جسے وہ پیار سے ہومی کہتے تھے )تھا۔ وہ ایک کامیاب انسان بننا چاہتا تھا ۔جیسا کہ جنریشن گیپ نئی نسل کا طرۂ امتیاز ہوا کر تا ہے ۔ہمایوں کو اپنے آدرش ورتا باپ سے زندگی بھر اختلاف رہا ۔احمد بشیر کا ایک یاد گار جملہ ان کے فکر وعمل کے میدان میں منفرد اور ثابت قدم رہنے کی کہانی بیان کر تا ہے ۔ ’’ مجھے دنیا نے مانا مگر نہ مجھے میرے باپ نے مانا اور نہ ہی میرے بیٹے نے ۔۔ ‘‘ دراصل انسان جب اس دنیا میں عملی زندگی میں قدم رکھتا ہے تو اس کے لئے ضروری ہے کہ سوچ لے کہ اسے آج میں زندہ رہنا ہے یا آنے والے کل میں ۔ ۔۔واقعہ یہ ہے کہ ہم کل میں تو زندہ رہنا چاہتے ہیں مگر کل کے لئے کچھ اسباب اور سامان اپنے آج ہی میں کما کر آج ہی خرچ کر دیتا ہے۔ یہی باعث ہے کہ کل میں زندہ رہنے کی خواہش کرنے والے اپنے آج میں نامراد لوٹتے ہیں۔احمد بشیر ان زیرک اور عرفان یافتہ لوگوں میں تھا۔جنہوں نے کل میں جینے کا فیصلہ کر رکھا تھا۔چنانچہ انہوں نے اپنے آج کو کل کے زادِ راہ سمیٹنے کے لئے استعمال کیا۔
زندگی بھر سماجی ناانصافی اور فرسودہ عقائدکے خلاف جہاد بالقلم کرنے والا یہ مجاہد۲۵ دسمبر ۲۰۰۴ ء کی شب کو اپنے قلم کی حرمت اور عظمت کی امانت آنے والے اہل قلم کو سونپ کر دنیا سے رخصت ہوا۔۔۔اناللہ وانا الیہ راجعون۔ عوام و خواص کی کثیر تعداد نے ان کے جنازے میں شرکت کی اور ان سب کی موجودگی میں ایف سی سی روڈ (مین مارکیٹ گلبرگ کے عقب میں) ایک چھوٹے سے قبرستان میں انہیں سپردِ خاک کر دیا گیا۔
آگ تھے ابتدائے عشق میں ہم ہو گئے خاک انتہا یہ ہے (عابد علی عابد)
ان کی سیاہ پتھر سے بنی ہوئی مرقد پر ان کی تاریخ پیدائش ۔۲۴۔مارچ۱۹۲۵ اور تاریخ وفات ۔25دسمبر 2004 درج ہے ۔ان کاپسند یدہ یہ شعر بھی کتبے پر کندہ تفسیر حیات بیان کر رہا ہے۔
(حاصل عمر سہ سخن بیش نیست خام بدم پختہ شدم ،سوختم (مولانا روم