مضمون نویسی ایونٹ . ستمبر 2015 مضموں

محبت اور ساحل (سید صداقت حسین)…2

بے پناہ حسن بھی محبت کے لطیف جذبوں کے آگے مانند پڑجاتا ہے ۔ وہ محبت جو انسان کو انسان سے ہوتی ہے ۔ وہ محبت جو فاصلوں کے باوجود انسانی دلوں میں لہروں کی مانند کوندتی رہتی ہے ۔ وہ محبت جو ہر پل جاگتی ہے اسے اونگھ تک نہیں آتی جسکی تشکیلات مربوط انسانی جذبوں میں دیکھی جاسکتی ہیں ۔اس حوالے سے عالمی محبت کا ایک عظیم الشان مظاہرہ اس وقت دیکھنے میں آیا جب کرہ ارض پر ٹھاٹھیں مارتے آبنائے ہرمز اور باسفورس کے سمندروں نے ایک معصوم فرشتے کو اگل کرانسانیت کے سب سے قوی جزبے محبت کو بڑی آزمائش سے دوچار کردیا ہے ۔ لیکن جلد ہی اس عظیم سانحہ ہر انسانی سوچ کی یلغار نے دہکتے ہوئے انگاروں جیسے الفاظ کا ایک آتش فشاں اگل دیا ہے ۔
ان انسانی ہاتھوں سے لکھے الفاظ نے ایک ایسے ادب کو تخلیق کردیا ہے جو حقیقت اور محبت کی تمام سرحدیں عبور کرگیا ہے کیونکہ ادب فن سے زیادہ صادق جذبوں سے پیدا ہوتا ہے ۔ اگر ان چند دنوں میں لکھے گئے الفاظ کو مجتمع کیا جائے تو ہمیں فن کے عظیم شہ پارے اور تخلیق کی پراسرار دنیائیں متعارف هوسکتی ہیں ۔ ادب کی یہ روح جو تمام کثافتوں سے پاک ہوتی ہے محبت کی ثانوی شکل ہے ۔ اب یہ عالمی روح بیچین ہے ۔ مضطرب ہے ۔ وہ اپنے مرکز سے جڑ رہی ہے ۔
کاش اس نظری اور فکری بیداری کے عوض انسانی نظاموں کی خود ساختہ زندانوں کی دیواریں آزادی حیات کے نعروں سے کانپ جائیں ۔ جبر کے نظاموں کے جبڑے کمزور ہوجائیں ۔
مائیں ہمیشہ کہتی رہتی ہیں کہ بچے کو سلانا بہت مشکل ہوا کرتا ہے۔ مگر ترک سمندروں کی بےرحم موجوں میں بے سروسامانی کے عالم میں سفر کرتی ماوں سے کوئی پوچھے تو وہ کہیں گی کہ ’’بچے کو اٹھانا نامکن ہے‘‘اس بچے کو جو ماں کی آغوش سے اچھل کر موت کی آغوش میں سوگیا ہے ۔
ترک ساحل اور سمندروں میں سفر کرنے والے طاقتور انسانی بجرے ہمیشہ سوگوار رہینگے کہ انسانیت کی تذلیل میں یہ پانی ایسی تاریخ رقم کرگیا ہے جس میں انسانی محبت کا عظیم ورثہ مدفون ہے ۔
عشق اور محبت پر لکھے گئے اکثر روسی ناولوں کی ابتدا بہار کے پھولوں سے ہوتی ہے اور انتہا برف باری پر جو حسین لارا سے محبت کرنے والے ڈاکٹر زواگو کا مقدر بنتی ہے ۔ مگر ترک ساحل سے یہ محبت عجیب ہے جو سرد پانی سے شروع ہوتی ہے اور بہار کے پھولوں کی متلاشی رہتی ہے ۔ کیا انسانیت سرد تابوت جیسے سماج میں رہنے کی سزا کا نام ہے۔کیا آجکاترقییافتہ دنیا کا آزاد انسان جبر کے نظاموں کا قیدی ہے ۔
طیب ارزدگان کا ساحل اور سمندر اداس ہے اب وہ کسی صدا کا جواب نہیں دے رہا ۔ ہولناک خاموشی ہے ۔ اس خاموشی میں اچانک اٹھنے والی انسانی سسکیاں تاریخ کی بدترین ہجرت اور اس ہجرت کے ہاتھوں تنگ آئےہوئے انسانوں کو بلانے کے لیئے بلند ہورہی ہیں ۔ مگر وہ پرندے نہیں جو واپس آجائیں ۔ درد تو جسم کا مقدر ہوا کرتا ہے روح کبھی درد محسوس نہیں کرتی ہجرت کی ستائی ہوئ تمام روحیں آزاد ہوگئیں مگر وہ زندہ رہ جانے والوں کو غم کا اسیر بناگئیں۔ ہجرت کرنے والی آنکھیں ایک ایسی نیند لیچکی ہیں جو کبھی بیدار نہیں ہونگی کبھی سحر نا دیکھ پائیں گی ۔
ترک ساحل پر نمودار ہونے والا بچہ زندگی کے حسن سے آنکھ چرا کر عالمی محبت کا ایسا استعارہ بن گیا ہے جس کے معنی ہر دل میں دھڑکتےہیں ۔

Leave a Comment