نظم نظمیہ مشاعرہ 14 جون 2015

ہوا دھوکا نہیں دیتی ۔۔۔۔۔۔ اقبال حسن آزاد

ہوا دھوکا نہیں دیتی
ہوا معصوم ہوتی ہے
ہوا تو استعارہ ہے
ہوا تو زندگی کا استعارہ ہے
یہ جب باغوں سے آتی ہے تو خوشبو لے کے آتی ہے
یہ جب پورب سے آتی ہے طبیعت گنگناتی ہے
مگر پھر یہ بھی ہوتا ہے
رچی جاتی ہے جب بھی آسماں میں کوئی بھی سازش
تو پھر بارود کی بو سے ہوا مسموم ہوتی ہے
فلک سے خوں برستا ہے
زمیں بھی زخم کھاتی ہے
سمندر سرخ ہوتا ہے
ہوا بدنام ہوتی ہے
مگر
ہوا کا کام تو چلنا ہے،یہ چلتی ہی رہتی ہے
یہ پھر سے صاف ہوتی ہے
یہ پھر سے پاک ہوتی ہے
ہوا دھوکا نہیں دیتی
ہوا معصوم ہوتی ہے۔

 

Leave a Comment