نظم نظمیہ مشاعرہ 14 جون 2015

کاش تم نے دریچے کھول دئے ہوتے ،،،،،،،،،،،،،،رضیہ صغیر

کل رات چاند کنارے
میں نے دھوپ سینکی تھی
بات گو عجیب ہے
لیکن جب تم
صبح کے آنگن میں
شب زادوں کو کھیلتا دیکھوگے
تو شاید جان لو کہ
وہ اجلی روشنیاں
جو تمہارے کرتوں کی بغلوں میں
پری پری زرد ہوگئیں
جو لپٹ لپٹ کر
تمہاری کھڑکیوں کی سلاخوں سے
زنگ آلود ہوئیں
جنہیں تم
دبوچ کر اپنے لحافوں میں
سو رہتے ہو,
وہ اپنی پازیبیں
پٹخ کر تمہارے اکڑے ہوئے سینوں پر
باندھ لیتی ہیں
اپنے پاؤں میں تمہارے خڑاٹے
اور
تمہاری نیندوں کے زینے چڑھتی ہوئیں
چاند کے کنویں میں چھلانگ لگا دیتی ہیں
رہزنِ شب انہیں
بھر بھر کر اپنی بالٹیوں میں
میل چھڑاتے ہیں اپنے تن کی
سو جب تم
اپنے روشندان کی جالیوں پر
اٹی ہوئی گرد دیکھو
تو شاید اب سوچو کہ
کاش تم نے دریچے کھول دیے ہوتے

Leave a Comment