نظم نظمیہ مشاعرہ 14 جون 2015

ادھورے خواب ،،،،،رابی شاہ

میں اپنے خوابوں کو کہاں رکھوں
نہ ان خوابوں کا طلبگار کوئی
نہ ان خوابوں کا خریدار کوئی
میں اپنے خوابوں کو کہاں رکھوں
درد سے بوجھل ہوتی آنکھیں
آنسوؤں سے لرزتی پلکیں
ان آنسوؤں میں بسے خواب میرے
ان خوابوں کا واسطہ نہ کسی سے
ان خوابوں کا نہ سلسلہ کسی سے
جو ان خوابوں کو بسا گیا مجھ میں
اس کا اب رابطہ نہ مجھ سے
میں اپنے خوابوں کو کہاں رکھوں
میرے خواب ، میرے ادھورے خواب
میرے خواب جن کی تعبیر نہ کوئی
میرے خواب جو وابستہ ایک سے
وہ ایک جو نا آشنا میرے خواب سے
میرے خواب جن کو تعبیر کی کوئی آس نہیں
میرے ادھورے میرے ریزہ ریزہ ہوتے خواب
میں اپنے خوابوں کو کہاں رکھوں
شکستہ زینوں سے رفتہ رفتہ اترتے
ٹوٹتے بکھرتے خواب میرے
پہلی بارش سے دھل جانے والے
کچی مٹی ،کچے رنگ کی طرح مٹ جانے والے
یہ اداس اداس تنہا تنہا سے خواب میرے
میں اپنے خوابوں کو کہاں رکھوں۔۔۔۔

Leave a Comment