میں اور میرے ابو جی کا رامپور
شہناز پروین سحر
یوں تو وقت میرے ذہن سے جانے کیا کچھ چھین کر لے گیا ہے ۔ لیکن ۔۔ اتنا یاد ہے کہ جب ابو جی خط لکھتے تھے تو لفافے پر ایڈریس میں “مکلی کا باغ ” بھی لکھا کرتے تھے۔۔ اب یہ لکھنئو میں ہے یا رامپور میں ۔۔۔ کچھ معلوم نہیں ۔۔۔ کیوں کہ سنا تھا کہ بعد میں ہمارے عزیز و اقارب رامپورسے لکھنئو شفٹ ہو گئے تھے ۔۔۔ بس ۔۔۔ اس کے علاوہ کچھ نہیں جانتی میں۔۔۔ لیکن ابا کی باتوں میں ہمیشہ رامپور ہی کا ذکر سنا یہ کہ کیسےان کا بچپن وہاں گذرا تھا ۔۔۔ کیسے وہ ایک نابینا حافظ جی سے قران ِ کریم حفظ کیا کرتے تھے۔ اس گفتگو میں اکثر جنات کا ذکر بھی آجاتا تھا ۔۔۔ کہ گوالیار میں میرے ابو جی کس طرح جنات کے مکان میں چلے گئے تھے ۔ اور پھر اس مکان کی داستان میں ہر روز ضد کر کر کے سنا کرتی تھی ۔۔ ماں کہتی تھیں کیوں بچی کو جھوٹی سچی کہانیاں سناتے ہو وہ ڈر جائے گی اور یہ بچی تھی کہ ضدیں کرتی نہیں تھکتی تھی یہی کہ ابو اسی مکان کی کہانی سنایئے جس کے صحن میں ایک بارہ گز لمبی لاش پڑی تھی اور ایک نو گز لمبی عورت نے وہاں ابو کو پلاؤ بنا کر کھلائی تھی جب وہ پانی لینے گئی تو چاولوں میں سے ایک بوٹی انسانی انگلی کی نکل آئی تھی جس پر ناخُن بھی تھا اور ابو وہاں سے نکل کر سر پٹ بھاگے پھر وہیں کسی راستے میں بیہوش ہو کر گر گئے جب ہوش میں آئے تو میرے ابو اپنے گھر تھے لیکن کئی دن تک تیز بخار میں جلتے رہے تھے ۔۔۔۔ ہائے میرے بیچارے ابو ۔۔۔۔۔ میں بہت دکھی ہو جاتی تھی ۔۔۔ لیکن ماں ایسی ظالم تھیں کہ ان سے جھگڑتی رہتیں ۔۔۔۔ اب ختم بھی کر و نا جی یہ اپنی داستان ِ امیر حمزہ ۔۔ ابو دو بار ہمیں رامپور لے کے گئے تھے ۔۔ پہلی بار تو میں بہت ہی چھوٹی سی تھی ۔۔۔ اور کھو بھی گئی تھی وہاں ۔۔ سارا گھر سارا محلہ ڈھونڈتا پھرا ۔۔ پاکستانیوں کی بچی گم ہو گئی ۔۔۔۔ پھر جب میں اپنے ابو کو ملی تو ۔۔ وہاں ایک سکھ کی گود میں ملی ۔۔ اور سکھوں نے یہ کہہ کر مجھے ان کے حوالے کرنے سے صاف انکار کر دیا کہ اے تاں ساڈی اپنی کُڑی اے ۔۔۔۔۔ ویکھو تاں سئی پنجابی بولدی اے ۔۔۔ اور میرے ابو کو پنجابی بولنی نہیں آتی تھی ۔۔۔ پھر وہ لوگ ہمارے ساتھ گھر آئے اور میری امی کو پنجابی بولتے سنا تو مجھے واپس دیا ۔۔ ماں نے بہت پیار کیا لیکن ڈانٹا بھی بہت ” دیکھو تو میسنی سی ایک بار بھی نہیں بولی ، کہ میں انہی کی بیٹی ہوں ” دوسری بار جب ابو ہمیں رامپور لے کے گئے تو کچھ دھندلائی ہوئی سی یادیں ہیں میرے پاس ۔۔ وہاں ایک بڑی سی لیکن بہت پرانی حویلی تھی ۔۔۔ جس کے صحن میں ایک کنواں بھی تھا۔۔ صحن میں امرود کا ایک پھلدار درخت تھا جس پر امرود لگے ہوئے تھے اور حیرانی کی بات یہ تھی کہ اُن امرودوں پر کپڑے کی تھیلیاں سی سی کر چڑھائی ہوئی تھیں۔۔ یہ مجھے ابھی تک نہیں پتہ کہ کیوں ۔۔۔ شاید طوطوں سے چھپانے کے لیئے ایسا کیا گیا ہو ۔۔۔لیکن وہاں امرودوں کی بجائے ہم نے آم کھائے تھے ۔۔ ایک بالٹی میں بھرے ہوئے ٹھنڈے پانی اور برف میں لگے ہوئے بہت سارے ٹھنڈے یخ آم ۔ وہاں اُس گھر میں میری پھپو تھیں اُن کے بچے تھے۔ وہ سبھی مجھ سے کافی بڑے تھے ۔ ہمیں محرم دیکھنے کے لیئے نواب رامپور کی کوٹھی میں کچھ دن قیام کے لیئے جانا تھا ۔۔۔ جس کی تیاری کے لیئے ماں نے اپنا ایک شاندار سوٹ کاٹ پیٹ کر میری پھپو کی بیٹی سعیدہ باجی کو دیا اور راتوں رات سلائی کر کے انہوں نے اس سوٹ کو میرے لیئے ایک ننھی سی شلوار قمیص بنا دیا تھا۔ پھر اگلے روز تانگہ منگوایا گیا اور اس کے گرد چادریں تانی گئیں ان چادروں کی اوٹ میں ہم تانگے پر سوار ہوئے بعد میں یہ چادریں وہیں تانگے کے گرد پردے کے لیئے باندھ دی گئیں تھیں ۔۔۔ میں چادر کی جھری میں سے انڈیا کی سڑک دیکھنا چاہتی تھی لیکن ڈرا دیا گیا کہ جو لڑکیاں ایسے باہر دیکھتی ہیں اور پردے میں نہیں رہتیں ان کو باہر سے مرد بٹے پھینک پھینک کر مارتے ہیں۔۔۔ لیکن میں تو اتنی چھوٹی سی ہوں اور ہمارے پاکستان میں تو بچوں کو ۔۔۔ بس بس ماں نے میرے منہہ پر اپنا ہاتھ رکھ دیا تھا۔ پھر ہم ٹخ ٹخ کے ردھم پر گھوڑے کے ٹاپو کا گیت سنتے نواب رامپور کی کوٹھی جا پہنچے ۔ وہاں بھی ٹھیک اُسی طرح چادریں باندھ کر ہمیں تانگے سے اُتار کر اندر لے جایا گیا ۔۔ محرم کے دوران نواب رامپور کی کوٹھی میں مجالیس اور نیاز کے ہر روز خصوصی اور باکمال قسم کے اہتمام ہوتے تھے ۔ ہمارے علاوہ بھی بہت سے مہمان تھے وہاں ہماری فیمیلی کو بھی باقی مہمانوں کی طرح ایک الگ کمرہ دیا گیا تھا۔۔ صبح ،دوپہر ،شام ،رات ناشتے اور کھانے کے انتظامات میں ہر وقت دیگیں چڑھتی اترتی رہتیں اور وقتا” فوقتا” پھلوں مٹھائوں اور دودھ کی نیازیں بٹتی رہتی تھی ۔ ایک دھندلے سے خواب کی صورت سب یاد ہے مجھے ۔ اکثر جب میں سوتی تھی ۔۔۔ خواب میں مجھے کسی عورت کا چہرہ دیوار پر بنا ہوا یا منڈیر پر رکھا ہوا نظر آتا تھا اور میں بہت زیادہ ڈر جایا کرتی تھی ۔ ایک ہال کمرے کا فانوس بہت اچھا لگتا تھا مجھے ۔۔۔۔ رات میں تو وہاں عزا دار خواتین کی محفلیں َہوتی تھیں ، دن کو میں اکثر دوسرے مہمان بچوں کے ہمراہ وہاں کھیلنے چلی جاتی تھی اور کتنی کتنی دیر اُس فانوس کی خوبصورتی کو بغور دیکھا کرتی تھی ۔۔۔ وہاں خوبصورت قالین بچھے ہوئے تھےاور ایک سٹیج کے جیسا بڑا سا تخت تھا ۔۔۔ نواب صاحب کی فیملی کی خواتین سیاہ فام ملبوسات میں بے حد حسین لگتی تھیں لیکن خود نواب صاحب ۔۔۔ بس ایک بار ۔۔۔ پل بھر کو ہی نظر آئے مجھے ۔۔۔ جب میں کھیلتے کھیلتے اپنے ابو جی کوڈھونڈنے نکل گئی تھی ۔۔۔۔۔ باہر کے بڑے سے صحن سے بھی کہیں آگے ۔۔۔ بہت دور نکل گئی تھی ۔۔۔اور پھر واپسی کا راستہ بھول گئی تھی ۔۔ ہم زنانخانے میں ٹھہرے ہوئے تھے جہاں مرد نہیں جاتے تھے نواب صاحب نے پوچھا ۔۔۔ ” اے لڑکی ۔۔۔۔۔۔ ! کون ہو اور یہاں کیا کر رہی ہو تم “۔۔۔ میں نے کہا “میں مسلمان ہوں اور اپنے ابا کو ڈھونڈ رہی ہوں ” پوچھا “کہاں سے آئی ہو” ۔۔ میں نے کہا “پاکستان سے” ۔۔ اور پھر بھاگی وہاں سے اسی واپسی کے راستے پر جدھر سے آ رہی تھی ۔۔۔ میں اندر کی جانب دوڑتی چلی گئی ۔ اور اپنے عزیزوں میں پہنچ کر ہی دم لیا ۔۔۔ لیکن ایک بات مسلسل سوچتی رہی ۔۔۔۔۔ کہ ہائے بیچارے نواب صاحب گنجے کیوں ہیں حالاںکہ وہ تو نواب صاحب ہیں ۔ اور میرے ابو ۔۔ کتنے شاندار بال ہیں اُن کے یا اللہ جی ۔۔۔۔ شکر شکر شکر ۔۔ کہ میں اپنے ابو جی کی ہی بیٹی ہوں مجھے یاد ہے کہ میں نے تین تین بار شکرانے کی دعا کے ہاتھ اپنے منہہ پر پھیرے تھے