مضمون نویسی ایونٹ . ستمبر 2015

’’میرا بچپن‘‘ ۔۔۔ بطور فکشن (عبدالسمیع) ریسرچ اسکالر جواہرلعل نہرو یونیورسٹی، نئی دہلی

خودنوشت کا شمار غیرتخلیقی اصناف نثر میں ہوتا ہے۔ اصناف کی تقسیم کب اور کیسے ہوئی یہ ایک الگ موضوع ہے۔ لیکن اتنا ضرور کہاجاسکتا ہے کہ یہ مکتبی تقسیم ہے، جس کی معنویت شعروادب کے باذوق قاری کے لیے اتنی اہم نہیں ہے۔ تخلیقی نثر اور غیرتخلیقی نثر میں وہ کون سی چیز ہے جو حد فاصل کی حیثیت رکھتی ہے۔نثری فن پارہ کی تقسیم کا ایک طریقہ تو یہ ہے کہ نثر تخلیقی بھی ہوتی ہے اور غیرتخلیقی بھی۔ اگر افسانوی نثر وہ ہے جس میں تخیل کی مدد سے کوئی واقعہ پیش کیا جائے تو پھرادب کی سماجی معنویت اور سماجی حقیقت نگاری جیسی اصطلاحوں پرنئے سرے سے غور کرنا پڑے گا۔عالمی ادب میں روزمرہ کے واقعات اور حادثات کو کہانی کی شکل میں پیش کرنے کی روایت بھی رہی ہے۔اردو میں منٹو،عصمت اور ستیارتھی کی بیشتر کہانیاں زندگی کے حقیقی واقعات کی عکاس معلوم ہوتی ہیں، اس سیاق میں ایسی تحریروں کو افسانہ کیونکر کہا جاسکتا ہے۔ارود میں کچھ ایسی خودنوشت ایسی بھی لکھی گئی ہیں جن پر شاعری کا گمان ہوتا ہے۔ اس گمان کی وجہ ردیف وقافیہ اور مسجع ومقفی عبارت نہیں ہے بلکہ تکنیک اور زبان کا تخلیقی استعمال ہے۔ جوش ملیح آبادی، اخترالایمان اور کلیم عاجز کی خودنوشت کو نقاد اگر غیرتخلیقی نثر میں شمار کرتے ہیں تو اس کی کیا وجہ ہے۔ افسانوی نثر اور غیرافسانوی نثر کے درمیان کوئی واضح خط امتیاز نہیں ہے۔ موضوع کی سطح پر تو کچھ حدیں متعیں کی جاسکتی ہیں لیکن زبان موضوع کے ساتھ کس قسم کا برتاؤ کرتی ہے اسے متن کے دائرۂ کار میں رہ کر ہی سمجھا جاسکتا ہے۔جب موضوع زبان پر غالب آجاتا ہے تو امتیازی لکیر واضح دکھائی دیتی ہے لیکن جب زبان موضوع پر حاوی ہوجاتی ہے تو صنفی حد بندی دھندلی ہوجاتی ہے ۔ آہنگ کے نئے تصور نے شاعری اور فکشن کے نشان امتیاز کو دھندلا کردیا ہے۔اب جب کہ شاعری کی حدیں نثر سے مل گئی ہیں، تو نثری اصناف کے درمیان امتیازی لکیر قائم کرنا کتنا مناسب ہے۔اگر زبان ہی اہم ہے تو پھر اس کے برتاؤ کے ساتھ ہی اس تحریر کی قدر قیمت کا تعین ہوسکتا ہے۔ متن ہی یہ طے کر گا کہ کون سی تحریر کس خانے میں رکھی جائے گی۔ ایک بنیادی سوال یہ بھی ہے کہ فکشن کیا ہے اور اسے دوسری نثری اصناف سے کیسے الگ کیاجاسکتا ہے؟
یہ سوالات میرے ذہن میں اس وقت بھی آئے تھے جب میں اخترالایمان اور کلیم عاجز کی خودنوشت پڑھ رہا تھا، لیکن جب عذرا عباس کی خودنوشت ’میرا بچپن‘ میرے مطالعے میں آئی تو شعر و ادب کی مروجہ اصناف بندی اورکمزوربنیادوں پر کی گئی زمرہ سازی کی غیرمنطقیت کا احساس ہوا ۔’میرا بچپن‘ کااسلوب نثر کی مروجہ درجہ بندی کو چیلنج کرتا ہے اور کسی ایک خانے میں فٹ نہیں ہوتا۔ کبھی اس پر شاعری کا گمان گزرتا ہے تو کبھی قصہ اور حکایت کا اور کبھی یہ افسانہ معلوم ہوتا ہے۔ قاری یہ طے نہیں کرپاتا ہے کہ اس کتاب کو کس خانے میں رکھے۔ عذراعباس اسے ’یادداشتیں‘ کہتی ہیں، لیکن کیا یادداشتیں ایسے لکھی جاتی ہیں۔ایک قسم کا ڈرامہ ہے جس میں بیان کنندہ قاری کے سامنے ایک منظر کے بعد دوسرا منظر، دوسرے کے بعد تیسرا منظر پیش کرتا ہے۔بنیادی طور پر یہ مناظر اور تصویریں غیرمرتب اور منتشر ہیں، اسے تسلسل اور ترتیب میں رکھنا قاری کا ذمہ ہے۔ راوی کو بیانیہ پر اس قدر قدرت ہے کہ قاری اس کے ساتھ اس وقت اوعہد میں بہتا چلاجاتاہے۔
عذرا عباس کی یہ کتاب ’میرا بچپن‘ آج کی کتابیں ،کراچی سے پہلی مرتبہ اکتوبر 1994 میں شائع ہوئی۔ کتاب پر نہ تو کوئی تعارفی نوٹ ہے اور نہ ہی عذرا عباس نے بطور تمہید کچھ لکھنے کی زحمت کی ہے۔ اس کی وجہ شاید وہی کشمکش ہے جس کی طرف اشارہ کیاگیا ہے۔ اس کی دوسری وجہ مصنفہ کی خوداعتمادی بھی ہوسکتی ہے ۔ ممکن ہے وہ قاری کو آزمانا چاہتی ہوں کہ قاری متن سے کیسا مکالمہ قائم کرتا ہے اور متن اس سے کس قسم کی قرات کا تقاضا کرتا ہے۔ یہاں ایک سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا یادداشت کو خودنوشت قرار دیا جاسکتا ہے،کیوں کہ یادداشت کی نوعیت خودنوشت، ڈائری اور روزنامچہ سے بہت مختلف ہوتی ہے۔ عذرا عباس ’میرا بچپن‘ میں اپنی کہانی سنانے کے لیے جو تکنیک استعمال کرتی ہیں، وہ شعر وادب کی مختلف اصطلاحوں کی پامالی کے ساتھ ایک نئی بوطیقا بھی قائم کرتی ہے۔خودنوشت لکھنا ان معنوں میں آسان ہے کہ اس میں ایک تسلسل کے ساتھ اپنے بارے میں لکھا جاتا ہے۔ اسے طویل اور مختصر کرنا مصنف کے اختیار میں ہوتا ہے۔ اس کے برعکس یادداشت لکھتے وقت بہت محتاط رہنا پڑتا ہے۔ یادوں کی بھیڑ اورایک دوسرے کو ملتوی اور منسوخ کرتی ہوئی یادوں پر قابو رکھنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ عذرا عباس نے اسی پریشانی کے ذکر کے ساتھ اپنی کتاب کا آغاز کیا ہے:

’’کہانی شروع کرنے سے پہلے یادداشت پر قابو پانا ضروری ہے۔‘‘ 1؎

عذرا عباس یادداشت کو قابو میں رکھنا جانتی ہیں۔ یادداشت کی بازیافت کرنا، اسے منظم کرنا اور پھر اسے صفحۂ قرطاس پر بکھیرنے کا عمل نہ صرف صبر آزما ہے بلکہ دقت طلب بھی ہے۔ ایک یاد سے دوسری کئی یادوں کے سلسلے ملے ہوتے ہیںجنھیں ایک دوسرے سے الگ کرنا اور ان پر قابو رکھ پانا بہت مشکل ہوتا ہے۔ عذرا عباس لکھتی ہیں۔

’’یادداشتیں بالکل اس طرح ہیں جیسے چیزیں اندھیرے میں پڑی ہوں اور آپ ٹارچ کی روشنی میں ٹٹول رہے ہوں، بعض دفعہ یہ ایک دم بھک سے روشنی میں اس طرح آجاتی ہیں جیسے سوپاور کا بلب جل جائے اور سب کونوں کھدروں میں پڑی ہوئی مل جائیں، بعض دفعہ دھندلی، یاد ایک دم اندھیرے میں۔ میں انھیں اندھیرے میں ٹٹول رہی ہوں۔ کچھ تو یوں سامنے پڑی ہیں اور مجھے حیرت میں ڈال رہی ہیں اور خود مجھے دریافت کرنے میں میری مدد کررہی ہیں۔ کن کن چیزوں نے مجھے مل کر بنایا ہے۔‘‘ 2؎

اس اقتباس سے یادداشت کی شعریات پر روشنی پڑتی ہے۔یادیں کہاں اور کیسے زندہ رہتی ہیں اور کس طرح فعال ہوجاتی ہیں اس کی طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے۔ ماضی کو’ اندھیرا‘ اور’ تاریکی‘ کہنے کی روایت نئی نہیں ہے۔ یادداشت بھی ماضی کا حصہ ہے۔یادیں انسان کی نشوونما میں کتنا اہم رول ادا کرتی ہیں اور انسان ان کے سہارے کس طرح خودکومہذب کرتاہے،وہ بھی موجود ہے۔ یادداشت کی بازیافت کا معاملہ ہمیشہ ایک سا نہیں ہوتا بلکہ کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ ماضی میں کسی خاص لمحہ کو تلاش کرتے ہوئے اس کا کوئی سرا ہاتھ نہیں آتا ہے، کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ کئی واقعات اچانک یاد آتے ہیں اورپھر ان واقعات سے یادوں کا ایک طویل سفر شروع ہوجاتا ہے۔ اسے یادداشت کا ردعمل بھی کہا جاسکتا ہے۔ عمل اور ردعمل کا یہ سلسلہ ہمیشہ جاری رہتا ہے۔ اس کے لیے شعوری کوشش کی ضرورت نہیں ہوتی:

’’یہ سب کچھ صرف لکھتے وقت ہی یاد نہیں آرہا ہے۔ یادداشتوں کے منظر اکثر میرے اردگرد ہی رہتے ہیں اور میں کسی بھی نئے منظر کے ساتھ کسی پرانے منظر کا سرا پکڑ لیتی ہوں۔ میں اکثر اپنی یہ یادیں دوسروں کو سناتی رہی ہوں۔ جن میں میں کبھی خوش ہوجاتی ہوں اور کبھی افسردہ۔‘‘3؎

عذرا عباس نے اپنی خودنوشت میں یادداشت کو ایک کردار کی شکل میں پیش کیا ہے۔ وہ خود یادوں سے مکالمہ کرتی ہیں اور یادیں بھی ان کے سامنے فعال نظر آتی ہیں۔ یادوں کو بصری پیکر کی شکل میں پیش کیاگیا ہے۔زندگی کے بہت سے ایسے تجربے ہیں جنھیں انسان یاد رکھنا چاہتا ہے مگر وقت کی گرد اتنی دبیز ہوجاتی ہے کہ وہ یادیں اجنبی سی معلوم ہونے لگتی ہیں لیکن کچھ یادیں آنکھوں کے سامنے رقصاں رہتی ہیں۔ یادوں کے تعلق سے عذرا عباس کے دو اقتباسات ملاحظہ کیجئے:

’’بہت سے ایسے منظر جنھیں شاید نہیں بھلانا چاہئے تھا، ہوسکتا ہے میں بھلابیٹھی ہوں، لیکن جو یاد رہ گئے ہیں وہ کیوں یاد رہ گئے ہیں، مجھے پتہ نہیں۔‘‘4؎
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’منظربہت سے میری نگاہوں کے سامنے ہیں لیکن بعض کے وقت کا تعین نہیں کرپارہی ہوں، وہ پہلے کے ہیں یا بعد کے۔ مجھے جو یاد آتاجارہا ہے اسی تسلسل سے لکھ رہی ہوں۔‘‘5؎

روایتی خودنوشت کے قاری کو اس کتاب میں شاید وہ سب کچھ نہ ملے جس کی اسے تلاش ہوتی ہے۔ یعنی مصنف کی پیدائش ، اس کا خاندانی پس منظر وغیرہ۔ عذرا عباس نے ان تمام باتوں کا ذکر تو کیا ہے مگر وہ خودنوشت کو دستاویز بنانے کے بجائے فکشن بنانے کی کوشش کرتی ہیں ۔ ذہین قاری اس میں اپنے مطلب کی معلومات بھی تلاش کرسکتا ہے ۔ عذرا عباس نے خودنوشت نہیں ایک ناولٹ یا طویل افسانہ خلق کیا ہے اور اس کی پیش کش کا طریقہ ’’نیند کی مسافت‘‘ سے مماثل ہے۔ جیسے ایک طویل نظم مختلف مختصر نظموں کی اکائی سے ترتیب پاتی ہے، اسی طرح یہاں یادداشتوں کی چھوٹی چھوٹی اکائیاں زندگی کے ایک خاص عرصے کو محیط ہیں۔ یہ خودنوشت قاری کو فکشن کے طور پر پڑھنے پر مجبور کرتی ہے۔ راوی نے چند کرداروں اور واقعات کو واہمہ اور متھ کی شکل میں پیش کیا ہے، انھیں پڑھتے ہوئے نیرمسعود کے افسانوں کی فضا بھی یاد آتی ہے۔ عذرا عباس چونکہ بہت اچھی شاعرہ اور افسانہ نگار بھی ہیں، اس لیے انھیں یہ ناولٹ یا خودنوشت لکھتے ہوئے مشقت نہیں ہوئی ہوگی مگر یادداشت لکھنا خود کو آزمائش میں ڈالنا بھی ہے۔ انھوں نے جس طرح سے اس چیلنج کو قبول کیا اور کامیابی کے ساتھ اس مرحلے سے گزری ہیں۔ اس سے ان کی تخلیقی شخصیت پر روشنی پڑتی ہے۔

اس کا راوی’میں‘ مرد اساس معاشرہ کو جگہ جگہ چیلنج کرتا نظر آتا ہے، وہ نہ صرف اپنے حقوق سے واقف ہے بلکہ اسے حاصل کرنا بھی جانتاہے اورنہ ملنے کی صورت میں احتجاج کرنا بھی سیکھ چکا ہے۔

’’مجھے یاد ہے، جب ہم سب بھائی بہن صبح اسکول جاتے ہوئے اماں کے پاس باورچی خانے میں آکر بیٹھ جاتے۔ اماں دودھ کے پیالے بھر بھر کر میرے بھائیوں کے آگے رکھتی ہے اور ایسی آنکھوں سے انھیں دیکھتی جاتی ہے جیسے وہ بہت بڑا کام کرنے جارہے ہیں۔ اور ہم بہنوں کے سامنے چائے کے پیالے رکھ دیتی ہے۔ مجھے یاد آرہا ہے اس دن سے پہلے میں ہمیشہ کڑھتی جاتی تھی اور چائے پیتی جاتی تھی۔ لیکن اس دن مجھے جانے کیا ہوگیا۔اماں نے جیسے ہی دودھ کے پیالے میرے بھائیوں کے سامنے رکھے، میں کھڑی ہوگئی اور ایک ہی لات دونوں کے پیالے لڑھکادیے۔’’روز دودھ پیتے ہو!‘‘میں شاید چیخی بھی تھی۔ سب یکابکا مجھے دیکھ رہے تھے۔اس سے پہلے کہ کوئی حرکت کرتا ، میں اماں کے کوسنے کی آوازوں کے درمیان اپنا بستہ اٹھاکر دروازے سے باہر بھاگ گئی۔‘‘6؎

یہ احتجاج دراصل اس بڑے احتجاج کا پیش خیمہ تھا جو بعد میں عذرا عباس کی شاعری اور افسانوں میں نمایاں ہوا۔ماں خود ایک عورت ہے لیکن وہ بھی اپنے اختیارات کا استعمال مرداساس سماج کے اصولوں کے مطابق کرتی ہے۔ یہ شاید اس کی سماجی مجبوری ہے، کیوں کہ عذرا عباس نے کئی ایسے مناظر پیش کیے ہیں جن میں عذرا عباس کی ماں ان کی بغاوت اور جرأت مندی کو دادبھری نظروں سے دیکھتی ہے لیکن زبان ہمیشہ کی طرح خاموش رہتی ہے۔ ماں کا کردار بہت متاثرکن ان معنوں میں نہیں ہے کہ وہ پرجوش مامتا کا مظاہرہ کرتی ہے یا بیٹیوں کا بالکل خیال نہیں رکھتی۔ یہ کردار کشمکش اور امید وبیم کی کیفیت میںہے۔ عذرا عباس کا اصرار یہ ہے کہ اگر مرد اور عورت دونوں ایک ہی طرح کے کام کرتے ہیں، ایک جیسی ذہنی اور جسمانی مشقت سے گزررہے ہیں تو پھر بھائیوں کو دودھ اور بہنوں کو چائے کیوں دی جائے ۔ابتدا میں تانیثیت کا بنیادی سروکار اسی تفریق اور امتیاز کے خلاف آواز بلند کرنا تھا،لیکن رفتہ رفتہ یہ تحریک اپنے بنیادی مسائل سے الگ ہوکر ایک سیاسی نعرہ بن کر رہ گئی۔عذرا عباس کی تحریروں میں یہ سوالات اپنی بنیادوں پر استوار نظر آتے ہیں۔ مرداساس سماج میں ماںکس کشمکش کا شکار ہوتی ہے، اس کا اندازہ اس اقتباس سے ہوتا ہے:

’’مجھے اپنی ماں کبھی سمجھ میں نہیں آئی۔اس کی آنکھوں میں کبھی میرے لیے غصہ نظر آتا اور کبھی وہ خوف زدہ ہو کر مجھے دیکھتی۔ کبھی کبھی ایسے لگتا جیسے وہ میری حرکتوں پر مجھے خاموش داد دے رہی ہے۔ تمام شور شرابے اور میرے خلاف بولنے کے باوجود یہ دوہری کیفیت مجھے اکثر اس کی آنکھوں میں نظر آتی تھی۔‘‘7؎

ماں اپنے بچوں سے یکساں طور پر محبت کرتی ہے۔اس محبت کا اظہار کبھی اعلانیہ تو کبھی پوشیدہ ہوتا ہے۔ عذرا عباس کی ماں کا معاملہ بھی اسی قسم کا ہے۔ وہ سماجی جبر اور مرد اساس سماج کی اخلاقیات کے پیش نظر بیٹیوں کے ساتھ امتیازی سلوک تو کرتی ہے مگر اپنے رویے پر مطمئن نہیں ہے۔ ماں عذرا عباس کو جب بھی جرأت کا مظاہرہ کرتے دیکھتی ہے تو غصہ میں آکراسے مارتی ہے مگر اسے خاموش دادبھی دیتی ہے۔ ماں کے تعلق سے عذرا عباس نے جہاں کہیں لکھا ہے، اس میں وہی کیفیت ہے جس کا اظہار اس اقتباس میں ہوا ہے۔ اس بیانیہ کا ایک اہم کردار دادا ہے۔ داداایک عجیب کردار ہے۔ بڑھتی عمر کے ساتھ ان میں بچوں کی سی شرارت آگئی ہے۔ عذرا عباس دادا کے ساتھ گزار ے دنوں کو بہت خوبصورتی کے ساتھ پیش کرتی ہیں۔ انھوں نے دادا کی ڈانٹ ڈپٹ اور سزاکو ایک دوسرا زاویہ عطا کردیا ہے۔ وہ دادا سے محبت کرتی تھیں یا نہیں اس کا اظہار تو کم ہی ہوا ہے لیکن دادا کی اکثر باتوں کو وہ مانتی ضرور تھی۔دادا کے بارے میں’میرابچپن‘کا یہ حصہ بہت بامعنی ہے:

’’ایک منظر جب میرے گھر میں ایک بوڑھے کا اضافہ ہوتا ہے۔ سرخ وسفید چہرے والا بوڑھا جس کو میں دادابا کہتی ہوں۔ دادا ابا جو مجھے یاد ہیں، ہر وقت میرے پیچھے پڑے رہتے تھے، چپل پہنو، منہ دھو، پاؤں دھو۔‘‘ مجھے ننگے پیر رہنے میں مزہ آتا تھا…‘‘ 8؎

’’دادا کی بڑھتی ہوئی شراتوں نے مجھے بھی عاجز کیا ہوا تھا اگرچہ میں نے اکثر ماں کو یہ کہتے ہوئے سنا، ’’تم نے بہت ستایا اپنے دادا کو۔‘‘ 9؎

اس اقتباس میں شوخی بھی ہے اور ظرافت بھی ، گھر میں عام طور پر بوڑھے آدمی کا اضافہ نہیں ہوتا ہے۔ عذرا عباس نے دادا کے ورد کا تذکرہ جس طرح کیا ہے اس سے یہ گمان ہوتا ہے کہ کسی نوزائیدہ کی آمد ہوئی ہے۔ دادا کی حرکتیں بچوں جیسی ہیں۔ داداکے متعلق یہ کہنا کہ ’دادا کی بڑھتی ہوئی شرارتوں نے مجھے بھی عاجز کیا ہوا تھا۔‘بہت معنی خیز ہے۔ عام طور پر ایسے جملے بچوں کے لیے کہے جاتے ہیں۔اس میں شک نہیں کہ بڑھاپے کی شرارتیں گھر والوں کے لیے مصیبت بن جاتی ہیں۔ عذرا عباس دادا کی جن حرکتوں کو شرارت قرار دیتی ہیں وہ دراصل اخلاقی پابندیاں ہیں، داداجسے وقتاً فوقتاً عذراعباس پر عائد کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ دادا عذرا عباس پر اخلاقی پابندیاں جس طرح سے عائد کرتے ہیں، پابندیوں کا لحاظ نہ رکھنے پر عموما جیسی سزائیں عذراعباس کو دی جاتی ہیں ، ان میں بھی ایک خاص طرح کی شرارت شامل ہوتی ہے۔ ان سب کے باوجود دادا کا کردار کئی مرتبہ معصوم بچے کا کردار معلوم ہوتا ہے، وہ جس طرح سے عذرا کے ساتھ کھیلتے ہیں، انھیں پریشان کرتے ہیں، اس سے محبت کا احساس ہوتا ہے۔ اگر دادا صرف عذرا ہی کے لیے اتنے سخت تھے تو اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ دوسروں کے مقابلے میں وہ عذرا انھیں زیادہ عزیزی ہے۔ دادا کا کردار جتنا روشن ہے باپ کا کردار اتنا ہی دھندلا نظر آتا ہے، کہیں یہ واضح نہیں ہوتا کہ باپ کس قسم کا انسان ہے۔ اس کی عبادت وریاضت کا ذکر مل جاتا ہے، بچوں سے محبت اور بیوی سے غصہ کا بیان بھی ہے مگر یہ سب دھندلا ہے۔ عذراعباس اپنی ماں اور باپ کے بارے میں لکھتی ہیں:

’’میری ماں سے زیادہ میرا باپ میرے قریب تھا۔ میری اپنے باپ سے دوستی تھی۔ اپنی ماں کاجو ہیولیٰ اپنے بچپن کا مجھے یادہے، وہ بہت کام کرتے ہوئے، میرے بیمار بھائی کو ایک کولھے پر لٹکائے ہوئے اور میرے باپ کی حرکتوں پر کڑھتے ہوئے یاخوش ہوتے ہوئے اور کبھی تیز یا کبھی دھیمی آواز میں کچھ نہ کچھ بڑبڑاتے ہوئے۔‘‘ 10؎

عام طور پر یہ دیکھا گیا ہے کہ لڑکیاں اپنے والد سے زیادہ قریب ہوتی ہیں۔ فرائڈ نے اس کی جو توجیہ پیش کی ہے، مجھے اس سے اتفاق نہیں ہے۔ عذرا عباس کا معاملہ دوسرا ہے۔ ان کے اندر ابتداہی سے وہ صفات زیادہ نمایاں تھیں جنھیں مردوں یا لڑکوں سے مخصوص کرکے دیکھاجاتاہے۔’ میرا بچپن‘ کے ہر صفحہ سے ان صفات کی عکاسی ہوتی ہے۔ انھوں نے جو بیانیہ اختیار کیا ہے، اس میں بھی وہی جرأت مندی اور بے باکی نظر آتی ہے۔ ماں کے تعلق سے پہلے بھی کہا جاچکا ہے کہ اس میں بظاہر کوئی ایسی کشش نہ تھی کہ اس کا نقش ذہن پر تادیرقائم رہتا۔ لیکن باپ کا کردار بہت پراسرار ہے۔ ایک اقتباس ملاحظہ کیجئے:

’’مجھے یاد ہے میرا باپ اکثر گھر سے غائب رہتا۔ جب گھر سے جارہا ہوتا تو میری ماں اس کا بستربند اور اس کا سامان باندھتے ہوئے اپنے سانولے چہرے پر ایک شکایت پھیلائے رکھتی۔ ’’اب کب ہوگا تبادلہ۔‘‘وہ بڑبڑاتی رہتی ۔ میرا باپ ماں کی پریشانی پر مزے لے لے کر پان چبارہا ہوتا اور میں بھی وہیں کہیں اپنے باپ کے گرد منڈلارہی ہوتی۔ اپنے باپ کے جاتے ہی میں اس کی تصویر جو میں نے ایسے موقعے کے لیے چھپارکھی تھی، نکال کر کسی کونے کھدرے میں چپکے چپکے رونے بیٹھ جاتی۔ شاید مجھے روتا ہوا کوئی بھی نہ دیکھ سکا، بہت دن بعد میرے باپ کی واپسی ہوتی ۔‘‘ 11؎

باپ اکثر گھر سے غائب رہتا ہے۔ وہ کہاں رہتا ہے اور کیا کرتا ہے اس کی تفصیلات نہیں ملتیں۔باپ کی غیرموجودگی میں اہل خانہ کن دشواریوں سے گزرتے ہیں ، ان کا بیان کم ہی ہوا ہے۔ یہ سوال بار بار ذہن میں ابھرتا ہے کہ آخر وہ کہاں جاتا ہے، اس کے جانے کی تیاری خود ماں کرتی ہے اور اس سے پوچھتی ہے کہ تبادلہ کب ہوگا۔ یہ تبادلہ کیا ہے۔ کیا وہ کسی فوج کا ملازم ہے، یا راوی کی ماں کے علاوہ اس کی کوئی اور بھی بیوی ہے جس کے پاس وہ جاکر رہتا ہے۔ یا وہ کسی خفیہ محکمہ میں کام کرتا ہے۔ عبادت وریاضت سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ مذہبی طور پر اپنا بوریا بستر لے کر تبلیغی جماعت والوں کے ساتھ نکل گیا ہو۔ راوی نے باپ کے کردار پر اتنا پردہ ڈال رکھا ہے کہ اس کی صورت واضح نہیں ہوپاتی:

’’مجھے اکثر اپنے باپ کا وہ غصہ یاد آتا ہے جو وہ ایک ساتھ ہم بچوں پر اور ہماری ماں پر ایک زور دار آواز نکالتا تھا۔ ہم کونوں میں دبک کر بیٹھ جاتے اور ماں کا ہاتھ مشین کی طرح کام پر چلنے لگتا۔ لیکن وہ غصہ تھوڑی ہی دیر میں ختم بھی ہو جاتا اور وہ ہمیں کوئی بات ہنس ہنس کر سنانا شروع کردیتا۔ ہم سب کھکھلااٹھتے۔ ماں کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل جاتی۔‘‘ 12؎

ماں، باپ اور دادا کے علاوہ اس کتاب میں کوئی اور اہم کردار نظرنہیں آتا۔ یہ تینوں کردار براہ راست طور پر راوی سے متاثر ہوتے ہیں اور اس کو متاثر کرتے ہیں۔ بھائی، بہن اور دوستوں وغیرہ کے نقوش واضح نہیں ہو پائے ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ راوی کے لیے ان کرداروں کی کوئی خاص اہمیت نہیں ہے۔وہ جس تیزی سے منظرنامے میں آتے ہیں اسی رفتار سے گزرجاتے ہیں۔ راوی ہر جگہ اپنی انفرادیت کے ساتھ موجود ہے۔ راوی ہی دراصل اس بیانیہ کا سب سے اہم کردار ہے۔ اس میں جرأت مندی اور کچھ کرگزرنے کا جذبہ ہے۔ اس کا ذہن ہر وقت کچھ نیا سوچتا ہے اور جسم عمل پر آمادہ معلوم ہوتا ہے۔گویا ذہن اور جسم ایک ساتھ سرگرم عمل ہے۔ اسے مٹی کی دیوار سے سیپیاں نکالنا اچھالگتا ہے۔پیڑ سے بیرتوڑنا اور پھر اسے اپنی فراک میں بھرنا پسند ہے۔ لڑکوں کے ساتھ سائیکل ریس پر نکلناہے۔ اپنے گھنگھرالے بالوں سے الجھن ہوتی ہے تو دادا کی طرح سرمونڈن کرالیتی ہے۔ فنون لطیفہ میں اس کی دلچسپی ہے۔ ندی کنارے ریت پر ننگے پاؤں چلنا اچھا لگتا ہے۔ حساس اتنی ہے کہ بلی کے بچہ کا زخم اس سے نہیں دیکھا جاتا اور ذہانت ایسی ہے کہ زمان ومکان کے ساتھ اعضائے جسمانی کا مصرف جاننا چاہتی ہے:
’’ایک دن میں اپنی ماں کے برابر لیٹی ہوئی تھی۔ میری ماں شاذونادر ہی میرے ساتھ لیٹتی تھی۔ اچانک میرا ہاتھ میری ناف کے اوپر پڑا۔میں اکثر نہاتے ہوئے اس ناف کے مصرف پر سوچتی۔ پیٹ کے بیچوں بیچ یہ ننھا سا گڑھا کیوں ہے؟ اور یہ سوال پھر میرے دماغ میں گھومنے لگا۔ میں ایک دم بستر پر اٹھ کر بیٹھ گئی۔ ’’اماں ایک بات بتاؤ گی؟‘‘ کیا؟۔ ’’یہ ناف کیوں ہوتی ہے؟‘‘ ابھی میری ماں جواب بھی نہ دینے پائی تھی کہ دوسرا سوال میرے دماغ میں گھوم گیا… میرا بھائی یہاں سے پیدا ہوا تھا؟ میری ماں ایک دم اٹھ کر بیٹھی اور ہوا کی طرح بستر سے اتر کر اس کے طمانچے نے میرا سر گھمادیا۔ ’’کمبخت۔ کیا کیا سوچتی ہے۔ ناک کیوں ہے، کان کیوں ہے۔‘‘ میں حیران ہو کر ماں کو دیکھ رہی تھی۔‘‘13؎

اس طرح کے کئی سوالات عذرا عباس کے ذہن میں آتے ہیں، جن کا جواب وہ تلاش کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ان سوالوں کو بچگانہ کہہ کر ٹالا تو جاسکتا ہے مگر یہ بھی دیکھا جانا چاہیے کہ اس عمر میں عام ذہنی سطح رکھنے والے بچے اس طرح نہیں سوچتے۔عذرا عباس نے جیسی تخلیقی زندگی بسر کی ہے، اس کی ابتدا بچپن سے ہی ہوگئی تھی۔ اپنی شرطوں پر زندگی گزارنے کی دشواریاں ہیں۔’’ میرا بچپن‘‘ پڑھتے ہوئے قاری ان دشواریوں کو محسوس تو کرتا ہے مگر عذرا عباس قاری سے ہمدردی حاصل کرنے کی کوشش نہیں کرتی ہیں۔ وہ بہن، بھائی، ماں، باپ اور دادا سے اپنی حرکتوں پر مار کھاتی ہیں۔ احتجاج بھی کرتی ہیں مگر اپنی آزادی سے سمجھوتہ نہیں کرتیں۔ سماجی مجبوریوں کے پیش نظربڑھتی عمر کے ساتھ ان پر بھی دھیرے دھیرے پابندیاں عائد کی جاتی ہیں ۔و ہ ان پابندیوں کا خیال کرتی ہیں مگر موقع ملتے ہی وہ اپنے رنگ میں آجاتی ہیں۔ اسکول کا سیاسی مظاہرہ، اسکول کا دروازہ بند ہونے پر دیوار پھاند کر اسکول کے احاطے میں داخل ہونا اور محرم میں لڑکوں کے ساتھ علم اٹھا کر چلنا، نام نہاد سماجی مجبوریوں کو شکست دینا بھی ہے۔

اس یادداشت میں عذرا نے زندگی کے جس دورانیے کو پیش کیا ہے، وہ بہت ہی رومانی زمانہ تصور کیا جاتا ہے لیکن اسی کے ساتھ اسکول کی زندگی بھی وابستہ ہے، خودنوشتوں میں جس سے عام طور پر بیزاری کی کیفیت ملتی ہے۔ عذرا عباس کی یادداشت اسکول محو نہیں ہوسکا۔ انھیں یاد ہے کہ کون سا اسکول اچھا تھا اور مکتب کی فضا کیسی تھی۔ اساتذہ اور استانیوں کا برتائو کیسا تھا۔

عذرا عباس نے جو اسلوب اختیار کیا ہے اس نے بھی اسے فکشن بنانے میں اہم رول ادا کیا ہے۔ ہر پیراگراف اپنے آپ میں مکمل ایک کہانی ہے، جسے افسانچہ کہا جاسکتا ہے۔ انھوں نے واقعات کوکچھ اس طرح پیش کیا ہے کہ ان کی تجرید ہوجاتی ہے۔ وہ اگر چاہتیں توان واقعات میں شخصی آہنگ پیدا کرسکتی تھیں۔ کتاب کے کسی پیراگراف کوآزادانہ طور پر پڑھیں تو اس میں معنی کی کئی سطحیں نظر آئیں گی۔ ایک اور اہم بات یہ ہے کہ اس میں سیاق وسباق یا زمان ومکان اپنی روایتی حدوں سے آگے نکل چکا ہے۔آپ کتاب کسی بھی صفحہ سے شروع کریں کہانی متاثر نہیں ہوگی۔

عاری نثر اور عام منطقی و استدلالی نثر کے طور پر’میرا بچپن‘ کی قرأت ممکن نہیں۔اسے ادبی سوانح اور مروجہ خودنوشتوں کی طرح بھی نہیں پڑھ سکتے۔اس کے اسلوب کا تقاضا یہ ہے کہ اس کی قرأت تخلیقی بیانیہ اور افسانوی نثرکی طرح کی جائے تاکہ یہ آپ پر پوری طرح آشکار ہوسکے۔

حوالے
1 عباس،عذرا۔میرا بچپن،کراچی:آج کی کتابیں،1994،ص؛7
2 عباس،عذرا۔میرا بچپن،کراچی:آج کی کتابیں،1994،ص؛9
3 عباس،عذرا۔میرا بچپن،کراچی:آج کی کتابیں،1994،ص؛22
4 عباس،عذرا۔میرا بچپن،کراچی:آج کی کتابیں،1994،ص؛13
5 عباس،عذرا۔میرا بچپن،کراچی:آج کی کتابیں،1994،ص؛13
6 عباس،عذرا۔میرا بچپن،کراچی:آج کی کتابیں،1994،ص؛21
7 عباس،عذرا۔میرا بچپن،کراچی:آج کی کتابیں،1994،ص؛21
8 عباس،عذرا۔میرا بچپن،کراچی:آج کی کتابیں،1994،ص؛14
9 عباس،عذرا۔میرا بچپن،کراچی:آج کی کتابیں،1994،ص؛16
10 عباس،عذرا۔میرا بچپن،کراچی:آج کی کتابیں،1994،ص؛24
11 عباس،عذرا۔میرا بچپن،کراچی:آج کی کتابیں،1994،ص؛29
12 عباس،عذرا۔میرا بچپن،کراچی:آج کی کتابیں،1994،ص؛43
13 عباس،عذرا۔میرا بچپن،کراچی:آج کی کتابیں،1994،ص؛66

Leave a Comment